تسنیم نیوز کی رپورٹ کے مطابق: صلح معاشرہ اور سماج کے مہم مسائل میں سے ہے جس کی ہر زمانے اور .0میں خاص اهمیت ہے ہر مذہب کے ماننے والوں نے اس تک پہنچنے کے لئے الگ الگ راستے بیان کئے ہیں خاص کر ایسے زمانے م یں جہاں امن نہ ہونے کی وجہ سے لوگ قربان ہو رہے ہیں۔
اس دوران دنیا میں اختلافات اور مسلمین کے درمیان وحدت نہ ہونے کی وجہ سے اسلام کا حصہ بہت کم ہے اسلام کا خوفناک چہرہ وھابیت اور دھشتگرد تنظیموں کے ذریعے پیش کیا جا رہا ہے آج کے دور میں اس سازش کی وجہ سے اسلام کو بہت نقصان پہنچا ہے۔
امام رہ کے افکار میں صلح نہ صرف عارف،مجتہد،سیاسی اور ایک متکلم ہونے کی وجہ سے مہم تھی بلکہ اسلام نے صلح کو اهمیت دی تھی اسی وجہ سے امام کی نظر میں صلح ایک خاص اهمیت رکھتی تھی خاص طور پر صلح کے بارے میں امام کا نظریہ صرف سیاسی نہیں تھا بلکہ ایک بنیادی نطریہ تھا۔دنیا میں صلح کے بارے میں دو نظریہ قائم ہیں ایک حقیقت پسند اور ایک آیڈو لیسم کا نظریہ قائم ہے ۔حقیقت پسند صلح کو موقتی اور جنگ کو ہمیشگی مانتے ہیں جو انسان کی ناپاک اور غلط فطرت کا نتیجہ ہے، تماس ہابز اور نیکولا ماکیولی کا اسی مسلک کے افراد میں شمار ہوتا ہے ۔
جبکہ ان مقابلے میں دوسرا نظریہ ہے جو یہ مانتے ہیں کہ انسان کی فطرت ناپاک نہیں بلکہ طاہر ہوتی ہے اور جنگ سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ اسلام این دو نظریوں میں کس نظریہ کی طرف اشارہ کرتا ہے؟ قرآن میں جنگ اور جہاد کے بارے میں بہت ساری آیتیں ہیں جو بعض مقامات پر ایمان کو جہاد سے منسوب کرتی ہیں اسی وجہ سے بعض فقہا نےجنگ کو اصلی قرار دیا لہذا ایسے مجتہد جب تک دنیا میں اسلام نافذ نہ کر لیں کفار سے لڑتے رہیں۔
تکفیری اور وہابی گروہ بھی انھی ایتوں کی وجہ سے وجود میں آے ہیں جو لوگ ان سے ملحق ہوتے ان کے افکار اور عقائد بھی انھی کی طرح ہوتے ابن تیمیہ اور عبدالوہاب تکفیری اور وہابی گروہوں کے نمائندے ہیں۔
لیکن ہم دیکھتے ہیں جہاں آیات جنگ اور جہاد کی طرف اشارہ کرتی ہیں وہیں قرآن میں تقریبا 100 آیتیں ایسی ہیں جو صلح کے بارے میں مخاطب ہیں ۔
پہلے گروہ کے مقابل میں علماء اور فقہا ء کا ایک دوسرا گروہ ہے جو ان آیتوں کو جنگ اور صلح کی طرف منسوب کرتے ہیں وہابیوں اور تکفیریوں نے توحید کے مفہوم کو مکلمل نہیں سمجھا لیکن لیکن اس وجہ سے اُن سے جنگ نہیں کی جاسکتی امام معاشرہ اور سماج میں امن، باہمی بھائی چارہ اور صلح پر جامع نظریہ پیش کرتے ہیں اور اس پر تاکید کرتے ہیں یہ چیز ان کی زندگی میں بھی اهمیت رکھتی ہے جو واضح اور روشن ہے ۔
فقہاء کے اس گروہ نے جہاد کو ایک دفاعی صورت میں پیش کیا ہے اور معتقد ہیں جہاد کے لئے کچھ خاص شرائط ہوتے ہیں جنکا انجام دینا مشکل ہے شیعہ مذہب جو اس نظریہ کا پیرو کار ہے اس نے ابتدائی جہاد کو امام زمانہ عج کے ظہور سے مشروط کیا ہوا ہے اور امام (ع) کی موجودگی میں ہر فرد پر لازم ہے کے اس عمل کو انجام دے اس مذہب کے بہت سارے فقہاء جنگ کو صرف صلح نہ ہونے کی صورت میں جائز سمجھتے ہیں۔
لیکن امام خمینی رہ کے افکار میں کون سا نظریہ صحیح ہے امام کے اقوال میں صلح کو بہترین اور صحیح راستہ بیان کیا گیا ہے امام فرماتے ہیں(ہم اسلام کی پیروی کرتے ہوے ہمیشہ جنگ کے مخالف ہیں)
امام راحل ایک دوسرے مقام فرماتے ہیں:ہم چاہتے تمام ملکوں کے درمیان صلح اور امن بر قرار ہو ہم انسانی اور الہی صلح کے معتقد ہیں کسی بھی ملک سے جنگ کے مخالف ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں اس طرح کی باتیں ایک عام مجتہد کی زبان سے جاری نہیں ہو سکتی بلکہ ایک ذاتی نظریہ کی بناپر بول رہے ہیں جو انسان کی فطرت کی طرف اشارہ کر رہی ہیں جو نہ صرف اچھی ہے اور نہ بری کیونکہ انسان کی فطرت میں غریزہ اور طمع بھی پایا جاتا ہے۔
اب اگر انسان فطرت کی طرف جاے تو صلح تک پہنچے گا اوراگر غریزہ کی طرف جائے تو جنگ ہو گی اسی بنا پر انسان ایک ایسا موجود ہے جو جنگ طلب بھی اور صلح طلب بھی ہے اسی وجہ سے امام رہ فرماتے ہیں اللہ نے پیغمبروں کو مبعوث کا تانکہ انسانی غرائض کو کنٹرول کیا جا سکے۔
امام کی فقہی نگاہ میں جہاد امام زمانہ عج کے زمانے میں فرض ہے امام صرف دو جہگوں پر جنگ کو جائز سمجھتے ہیں:
1۔ جارحیت کو ختم کرنے کے لئے۔
2۔ظلم کو مٹانے کے لئے۔
البتہ امت اسلامیہ کے مفادات کو مد نظر رکھتے ہوے۔
تکفیر اور وہابیت اسلامی مباحث میں سے ایک مہم عنوان ہے جس کا نتیجہ جنگ ہے اس کے بارے میں امام فرماتے ہیں ۔ جس کی گفتگو اسلامی گفتگوہو گی اورشہادتین کو ادا کرے گا وہ جانتا ہے کہ تکفیریوں سے جداہونا چاہیے اور وہ جدا ہوتا ہے ۔
امام رہ کے نقطہ نظر سے ان لوگوں نے توحید کے مفہوم کو مکمل نہیں سمجھا لیکن اس وجہ سے ان کے ساتھ جنگ نہیں کی جاسکتی امام معاشرہ اور سماج میں امن، باہمی بھائی چارہ اور صلح پر جامع نظریہ پیش کرتے ہیں اور اس پر تاکید کرتے ہیں یہ چیز انکی زندگی میں بھی اهمیت رکھتی ہے جو واضح اور روشن ہے اسلامی انقلاب ایران بھی اسی سوچ پر تشکیل ہوا ہے امام رہ کی رفتار بھی اسی نظریہ کے مطابق تھی۔
دنیا آج ہر دور سے زیادہ اسلام کے حقیقی افکار کی پیاسی ہے اور انکو قبول کرنے کے لئے تیار ہے آج ہم پر لازمی ہے کہ ہم جنگ ، صلح،امن اور باہمی بھائی چارگی کے بارے میں امام رہ کے افکار کو بیان اور انکی تشہیر کریں اور دنیا میں اسلام کے خلاف تیزی سے بڑھنے والی لہر کا مقابلہ کریں۔