قاری عبدالرحمن: انقلاب اسلامی ایران کےخلاف، سعودی امریکی اتحاد؛ جو قرآن پر ایمان رکھتا ہے، وہ ایسے کسی اتحاد میں شامل نہیں ہوسکتا جو امت مسلمہ میں تفریق کا باعث بنے۔
پاکستان میں شیعہ سنی بھائیوں کی طرح رہتے ہیں، اس ملک کو بنانے اور سنوارنے میں ان دو مکاتب کا اہم رول ہے، لیکن دشمن نے ایسا پروگرام بنایا ہےکہ شیعہ سنی آپس میں دست و گریباں ہو جائیں۔
قاری عبدالرحمن کا کہنا تھا کہ خطے میں جو بھی اثرات ہوں، پاکستان میں ریاض کانفرنس کے تباہی اور بربادی کے اثرات نمودار ہوں گے، اس کی وجہ یہ ہےکہ یہ کانفرنس اس مقصد کیلئے بلائی گئی کہ امت مسلمہ کو عقائد اور مسالک کی بنیاد پر تقسیم کیا جائے۔ اس کانفرنس میں سنی شیعہ تنازعات کو ابھارنے کیلئے ایک لائحہ عمل دیا گیا ہے، دنیا کو واضح پیغام دیا گیا ہےکہ ہم نیٹو کی طرز پر سنی نیٹو تشکیل دے رہے ہیں، اس سے پاکستان کے وجود کو خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔ علامہ اقبال اور قائد اعظم کے تصور کو خاک میں ملا دیا گیا ہے۔
پاکستان ایک اسلامی ملک ہے، جس کی ملوکیت کے ساتھ جنگ ہے۔ اگر کوئی نظریہ کی بات کرتا ہےکہ اسلام میں ملوکیت کے خلاف جنگ ہے تو اس کو یہ نظام کیسے قبول ہوسکتا ہے؟ یہ باطل نظام کسی مسلمان کو قبول نہیں۔ ان کے ساتھ بیٹھنا، معاہدے کرنا اور مذاکرات کرنا قرآن کی نگاہ میں حرام ہے، کیونکہ قرآن نے کہا ہےکہ ملوک جہاں بھی داخل ہوتے ہیں، فساد پھیلاتے ہیں۔ جو قرآن پر ایمان رکھتا ہے، وہ ایسے کسی اتحاد میں شامل نہیں ہوسکتا جو امت مسلمہ میں تفریق کا باعث بنے۔ پاکستان میں شیعہ سنی بھائیوں کی طرح رہتے ہیں، اس ملک کو بنانے اور سنوارنے میں ان دو مکاتب کا اہم رول ہے، لیکن دشمن نے ایسا پروگرام بنایا ہےکہ شیعہ سنی آپس میں دست و گریباں ہو جائیں۔
حد تو یہ ہےکہ اس اتحاد کو سنی نیٹو کا نام دیا گیا ہے؛ میں کہتا ہوں کہ اہل سنت کا نام استعمال ہو رہا ہے۔ انہوں نے ہمیشہ اہل سنت پر ظلم و ستم کئے ہیں۔ یہ جتنی بھی حکومتیں ہیں، یہ شیطانی حکومتیں ہیں، یہ ہماری نمائندہ حکومتیں نہیں ہیں، اس لئے ہم ان سے براءت کا اعلان کرتے ہیں۔
پاکستان کی اندر سازش کی جا رہی ہےکہ مساجد اور امام بارگاہوں میں شیعہ سنی کو باہم دست و گریباں کر دیا جائے، کیونکہ شیخ الحرمین نے تو اعلان کر دیا ہےکہ ہم نے سنی نیٹو بنا دی ہے۔ انہوں نے شیعوں کے خلاف ناجائز بیان دیا ہےکہ ہم نے انہیں مارنا ہے؛ یہ ساری منصوبہ بندی ایران کے خلاف ہوئی ہے۔
پاکستان کے حکمران اور عسکری قیادت نہیں جانتی کہ اگر یہ تنازعہ پاکستان میں بھی چل نکلا تو پھر یہ نعرے اور جھنڈے صرف سڑکوں پر ہی نہیں بلکہ فوج کی بیرکوں میں بھی لگیں گے۔ اس لئے ان نکات پر غور کرو اور راحیل شریف کو واپس بلاو، ہماری بھلائی اسی میں ہےکہ اس اتحاد میں شامل نہ ہوں۔
کیا یہ واضح نہیں ہوگیا کہ آل یہود و آل سعود کا اتحاد کس کےخلاف ہے؟
جی بالکل، ان کا اتحاد انقلاب اسلامی ایران کے خلاف ہے، یہ شاہ کے زمانے میں ایران کے ساتھ ہوا کرتے تھے۔ امام خمینی کیونکہ ایک فکر، سوچ اور انقلاب کا نام ہے، اس لئے یہ ان کے خلاف ہیں۔ سعودی بادشاہ کو دین، اسلام، خانہ کعبہ کسی بھی چیز کا خوف نہیں ہے۔ انہوں نے سالار کفر کو ساتھ ملا لیا ہے، ریاض کانفرنس دراصل غلاموں کی مجلس تھی، جس میں یہود کے ایجنٹ بیٹھے تھے۔ یہ امریکہ کا طلب کردہ اجلاس تھا، جس میں سب مجبوراً شریک ہوئے، اگر کوئی ملک اور رہنما نہ آتا تو امریکی اس کی حکومت ختم کرا دیتے۔
قاری عبدالرحمن نے سعودی وزیر دفاع کا امام مہدی کے بارے گفتگو کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: ان کا امام مہدی علیہ السلام سے کیا تعلق؟ یہ تو امام مہدی (ع) کے ظہور کی مخالف قوتیں ہیں، ان کا مہدی (ع) پر ایمان نہیں، بلکہ رسالت کے متعلق بھی ان کا کوئی تصور نہیں ہے، وہ صرف ٹرمپ کے معتقد ہیں۔ دنیا کے تمام مسلمان امام مہدی علیہ السلام کے متنظر ہیں، ہم اپنی زندگی ان کے انتظار میں گزار رہے ہیں، ہم چاہتے ہیں ان کا جلد از جلد ظہور ہو تاکہ یہ فساد اور کفر کا نظام ختم ہوسکے۔
سعودی حکومت، اس شخص کی حکومت کا تسلسل ہے جس نے نواسہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ کو قتل کر دیا تھا، یہ فساد پیدا کرنے والے لوگ ہیں۔ ان لوگوں نے امام مہدی کی توہین کی ہے تو اللہ ان کی توہین کرےگا؛ ٹرمپ کا دورہ ہی ان کی توہین ہے؛ ٹرمپ، ان کی جیبوں پر ڈاکہ مار کر چلا گیا ہے اور وہ پیسے اسرائیل کے حوالے کئے ہیں؛ اس سے بڑھ کر اور کیا بدبختی ہوگی۔
انھوں نے مزید کہا: دیکھیں جب سعودی وزیر دفاع بیان دیتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہےکہ اس کے پیچھے داعش ہے؛ اس لئے ان سے توقع رکھنا کہ یہ سلامتی کا باعث بنیں گے، یہ حماقت ہے۔ یہ لوگ پاکستانی سرحد پر ایران کے خلاف جنگ مسلط کرنا چاہتے ہیں۔ ان دہشگردوں کی پشت پر اسرائیل، امریکہ اور سعودی عرب ہیں جو پاک ایران تعلقات کو خراب کرنا چاہتے ہیں؛ یہ ہماری طاقت اور عوامی صلاحیت کو جنگ میں جھونکنا چاہتے ہیں۔ سعودی امریکی بلاک کا ہمارے اوپر دباو بھی بہت ہے اور جب تک دباو ہے، اس وقت تک ہم غلام ہیں اور غلام کی اپنی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔
مولانا نے دلی عقیدت بیان کرتے ہوئے کہا: میں کہتا ہوں کہ قیام پاکستان سے لیکر آج تک دین کے احیاء کیلئے، اللہ کے دین کی حاکمیت کیلئے، دین کی جدوجہد کیلئے، انقلابی نظریئے کے احیاء کیلئے، پاکستان میں کوئی بھی مولوی تختہ دار پر نہیں لٹکایا گیا، ان کی تاریخ یہی ہےکہ یہ طاغوت کے حامی رہے ہیں۔ افسوس کہ قرآن کے احکامات معطل ہیں، ان کو کوئی خیال نہیں ہے۔
میرے نزدیک اور عالم اسلام کے نزدیک، امام خمینی، وہ شخصیت ہیں جنہوں نے اسلام کو غلبہ دلایا ہے، ملوکیت کے قبضے اور تصرف کے بعد یعنی 61 ہجری سے لیکر آج تک اس استبداد کو توڑنے کا کام امام خمینی نے انجام دیا۔ آپ کرہ ارض پر اور تاریخ پر نگاہ ڈال کر کوئی مثال پیش نہیں کرسکتے، سوائے امام خمینی کے۔ پوری اسلامی تاریخ کا ایک ورق ورق پلٹاوں تو ایک ہی مثال ملتی ہےکہ جس نے اللہ کے دین کو غلبہ دلایا۔ اللہ کے دین کی حاکمیت قائم کی اور وہ تھے امام خمینی رضوان اللہ تعالٰی۔
جو لوگ انقلاب کیلئے کوشاں تھے، انہوں نے اس انقلاب کی تائید کی ہے، پاکستان سے خود مولانا مودودی اس کی مثال ہیں۔ انہوں نے پیغام دیا تھا کہ جو کام امام خمینی نے ایران میں انجام دیا ہے، اس کی ہم پاکستان میں جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔ سید مودودی نے کہا تھا کہ میں اپنے بچوں اور دوستوں کو وصیت کرتا ہوں کہ انقلاب ایران کے وفادار رہنا۔ سید مودودی کے امام خمینی سے عراق میں، فرانس میں اور پھر جب واپس آئے اس وقت تک تعلقات قائم رہے ہیں۔
امام خمینی کے نمائندے منصورہ آئے اور سید مودودی سے ملاقات کی۔ میں کہوں کہ انقلاب اسلامی کے اثرات نوجوانوں کے ذہنوں پر مٹ نہیں سکتے۔ یہ نقوش آج بھی قائم و دائم ہیں۔
ماخذ: اسلام ٹائمز