حوزہ علمیہ کے نامور استاد، آیت اللہ علوی بروجردی نے کہا: داعش اور القاعدہ جیسے تکفیری گروہ، تیل کی آمدنی سے حاصل ہونے والی رقم، امریکی سیاست اور ان کے انٹیلی جنس اداروں کے بل بوتے پر سرگرم ہے جو شیعہ مکتب کی ترقی اور توسیع پر دلالت کرتا ہے۔
جماران کی رپورٹ کے مطابق، آیت الله علوی بروجردی نے کہا: عصر حاضر میں شریعت اسلامی کی تبلیغ کےلئے موجودہ دور کی رائج زبانوں کو بروئے کار لانا ضروری ہے، کیونکہ عصر حاضر میں بہت سے دوسرے ممالک اور مختلف ثقافتوں سے ہمارا واسطہ ناگزیز ہوچکا ہے، مثال کے طور بھارت کی شیعہ آبادی، ایران کی کل آبادی کے برابر ہے نیز پاکستان کی آبادی کا ایک تہائی حصہ شیعہ مسلک پر مشتمل ہے، اسی طرح افغانستان میں بھی یہی تناسب قائم ہے یہاں تک سعودی عرب کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہاں کی مجموعی آبادی کا پانچواں حصہ شیعہ مسلک سے تعلق رکھتا ہے تاہم سعودی عرب کے شیعوں کے مطابق یہاں کی کل آبادی کا ایک تہائی حصہ شیعوں پر مشتمل ہے، لہذا شریعت کو لوگوں تک پہنچانے میں اگر ہماری آپسی ہم آہنگ نہ ہوں تو تبلیغی سرگرمیوں میں ہمیں بہت سی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑھتا ہے۔
دوسری بات جس پر توجہ دینا ضروری ہے وہ یہ ہے کہ چودہ سو سال پہلے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ کی زبان مبارک سے جاری ہونے والے جملے «قولوا لااله الا الله تفلحوا» سے آغاز ہونے والی تحریک نیز ائمہ طاہرین علیہم السلام اور شہزادی کونین حضرت صدیقه کبری علیہا السلام کے ذریعے اسلامی اصولوں کی حفاظت اور پاسداری کےلئے اٹھایا جانے والا عملی اقدام جو بعد میں عہد صادقین علیہما السلام میں علمی اور ثقافتی تحریک پر منتج ہوا جس کو 1400 سال کے عرصے میں علماء اور بزرگان دین نے حالات کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہوتے ہوئے اپنی تدبیر سے آگے بڑھانے کی کوشش کی یہاں تک کہ اس تحریک کا پرچم دست بہ دست ہوکر آج ہم تک پہنچا ہے اور اس وقت ہم اس کے علمبردار ہیں اور چودہ صدیاں گزرنے کے بعد حوزہ علمیہ سے ایک مرد حق نے قیام کرتے ہوئے اسی تحریک کو اسلامی نظام اور حکومت اسلامی کی شکل میں وجود بخشا اور تمامتر مشکلات کے باوجود چودہ صدیوں کے بیت جانے کے بعد آج ہم ایک اسلامی حکومت کے مالک ہیں، یہ ایک سنگین ذمہ داری ہے جس سے ہماری مسئولیت میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔
حوالہ: جماران خبررساں ویب سائٹ