جو کچھ لبنان میں رونما ہوا اور جو کچھ آج ہم مقبوضہ فلسطین کی سرزمین میں دیکھ رہے ہیں، اس سے معلوم ہوتا ہےکہ امام خمینی کی تحریک بیداری کی کوششیں بارآور ثابت ہوئی ہیں۔
ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی، کئی لحاظ سے مسلمانوں کے صیہونیوں کے خلاف جہاد میں شدت پیدا ہونے کا باعث بنی اور اس نے فلسطینیوں کے جہاد کی رفتار و روش کو بدل کر رکھ دیا۔
مشرق وسطیٰ کے حساس خطے میں شاہ کی حکومت، مغرب اور اسرائیل کی ایک طاقتور اتحادی حکومت کہلاتی تھی۔ ایران، اسرائیلی محصولات اور اجناس کا بازار تھا جو ایک طرف غاصب اسرائیلی حکومت کے اقتصادیات کےلئے رونق کا باعث تھا تو دوسری طرف شاہ ایران، اسرائیل کا ضرورت بھر تیل اسے فراہم کرکے اس حکومت کی مدد کرتا تھا۔ اس طرح ایران کا تیل اسرائیلی اقتصادیات اور صنعتوں کے ذریعے گولیوں اور اسلحے میں تبدیل ہو کر فلسطینیوں کے سینے چھلنی کرتا تھا۔ ایران خطے کے عربوں کو کنٹرول میں رکھنے کی خاطر اسرائیلیوں کےلئے جاسوسی کا اڈہ بنا ہوا تھا۔
امام خمینی کے قیام کے اسباب میں سے ایک سبب شاہ کے اسرائیل کے ساتھ آشکارا اور ڈھکے چھپے تعلقات کا بھانڈا پھوڑنا اور شاہ کی طرف سے مسلمانوں کے مشترکہ دشمن اسرائیل کی بے دریغ امداد کی مخالفت کرنا تھا جس کے بارے میں خود امام خمینی نے فرمایا:
''ہمیں شاہ کے مقابلے پہ لا کھڑا کرنے کے اسباب میں سے ایک سبب، شاہ کی طرف سے اسرائیل کی مدد ہے۔ میں نے ہمیشہ اپنی تقاریر میں کہا ہےکہ اسرائیل جب سے وجود میں آیا ہے اسی وقت سے شاہ اس کی مدد کر رہا ہے اور جس وقت اسرائیل اور مسلمانوں کی جنگ اپنے عروج کو پہنچی ہوئی تھی، شاہ بدستور مسلمانوں کے تیل کو غصب کرکے اسرائیل کو دیتا تھا۔ جس کی بنا پر میں نے شاہ کی مخالفت کی ہے''۔
شاہ کی سرنگونی اور اسلامی نظام کی حاکمیت پہلی کاری ضرب تھی جس نے صیہونیوں کے توسیع پسندانہ عزائم کو واقعاً خطرے میں ڈال دیا۔
اسلامی انقلاب کے پیغام کی تاثیر اور عوامی افکار پر اس کی رہبری اس حد تک وسیع تھی کہ جس وقت انور سادات نے کیمپ ڈیوڈ کے مقام پر سمجھوتے کے معاہدہ پر دستخط کیے تو حکومت مصر کو عربوں کے جرگے، نیز عرب رجعت پسند حکومتوں کے گروہ سے بھی خارج کردیا گیا اور وہ بالکل تنہا ہو کر رہ گئی۔
بیت المقدس کی غاصب حکومت کے اصلی حامی امریکہ اور یورپی ممالک کی حکومتیں، جنہوں نے امام خمینی کی تحریک سے شکست کا تلخ تجربہ حاصل کیا تھا اس بنا پر انقلاب اسلامی کے سامنے بند باندھے اور حالات کا رخ موڑنے کےلئے، ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر نکل کھڑی ہوئیں اور اس راہ میں اتنا آگے نکل گئیں کہ اپنے مشرقی رقیب، سابق روس کے ساتھ بھی ہاتھ ملا لیا اور اس اتحاد کی روشن تصویر پر سب نے اپنی آنکھوں سے دیکھی کہ انہوں نے صدام کو اسلامی جمہوریہ ایران کی سرزمین پر قبضہ کرلینے پر اکسایا اور نو مولود اسلامی نظام کے ساتھ جنگ کے پورے عرصے میں دونوں بڑی طاقتوں نے اس کی مدد کی؛ امام خمینی فرماتے ہیں:
''سب سے زیادہ افسوس کا باعث یہ ہےکہ بڑی طاقتوں خاص کر امریکہ نے صدام کو دھوکہ دے کر اس سے ہمارے ملک پر حملہ کرادیا اور ایران کی مقتدر حکومت کو اپنے ملک کا دفاع کرنے میں سرگرم کردیا تاکہ اسرائیل کی غاصب اور تباہ کن حکومت کو ''نیل سے فرات تک'' بڑا اسرائیل بنانے کا اپنا خواب پورا کرنے کا موقع مل سکے اور وہ اس سلسلے میں اقدام کرسکے''۔
اگرچہ تلخ حوادث، سازشوں اور انقلاب اسلامی کی ترقی کی راہ میں دشمنان اسلام کی ایجاد کردہ رکاوٹوں اور اسی طرح مشرقی بلاک میں رونما ہونے والے تحولات نے امریکہ کو قادر بنا دیا کہ وہ اسرائیل کے ساتھ سمجھوتے اور اسے تسلیم کرلینے کو مشرق وسطیٰ کے بحران کے حل کےلئے تنہا وسیلے کے طورپر پیش کرسکے اور مصر کو نہ صرف عربوں کے جرگے میں واپس لے آئے، بلکہ سازش میں شریک تمام ممالک کی صفوں میں کہ جن میں اس وقت اکثر عرب ملک شامل ہیں، پیش پیش رکھ سکے؛ لیکن اس کے باوجود بھی جو کچھ لبنان میں رونما ہوا اور جو کچھ آج ہم مقبوضہ فلسطین کی سرزمین میں دیکھ رہے ہیں، اس سے معلوم ہوتا ہےکہ تمام رکاوٹوں کے باوجود بھی ملت فلسطین نے پیغام انقلاب کو وصول کرلیا ہے اور امام خمینی کی تحریک بیداری کی کوششیں بارآور ثابت ہوئی ہیں۔
انتفاضہ تحریک وجود میں آئی ہے اور مغربی دنیا میں سازش کرنے والوں کی خیانت کے باوجود آج حتی غاصب اسرائیلی حکومت کے حکام اور امریکہ سبھی یہ اعتراف کر رہے ہیں کہ تفکر انقلاب اسلامی کا جوہر اور امام خمینی کی آرزوئیں حوادث فلسطین میں سب کے سامنے نظر آ رہی ہیں جو ناقابل انکار ہیں۔
والسلام علی من اتبع الھدی