اتحاد امت کا خواب

اتحاد امت کا خواب

رہبر کبیر، بت شکن زمان، بانی اتحاد امت و انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی (رہ) فرماتے ہیں کہ جو شیعہ و سنی میں تفرقہ ڈالے وہ شیعہ ہے نہ سنی بلکہ استعمار کا ایجنٹ ہے۔

اگر ہم امام رہ کے افکار کا مزید مطالعہ کریں تو یہ واضح ہوتا ہے کہ امام خمینی (رہ) نے عالم اسلام میں تفرقہ و اختلاف کے دو اہم اسباب و عوامل کو قومی اور مذہبی تفرقہ کے عنوان سے یاد کیا ہے۔ آپ اس بارے میں فرماتے ہیں: ہمیں اس پہلو کو مدنظر رکھنا چاہئے کہ ہم سب مسلمان ہیں، ہم سب اہل قرآن اور اہل توحید ہیں اور ہمیں قرآن و حدیث کے لئے زحمت اٹھانی چاہئے اور ان کی خدمت کرنی چاہئے۔ امام خمینی سپر طاقتوں کی نفی کے علاوہ ان کے داخلی اوزار و وسائل اور عناصر کی نفی کو ہی عالم اسلام کے اتحاد اور امت اسلامی کی یکجہتی کی حفاظت کے لئے ایک دوسرا بنیادی قدم جانتے ہیں؛ کیونکہ اس بات کے پیش نظر کہ امام خمینی نے عالم اسلام میں تفرقہ و اختلاف کے دو اہم اسباب و عوامل کو قومی اور مذہبی تفرقہ کے عنوان سے یاد کیا ہے، آپ اس بارے میں فرماتے ہیں:  ہمیں اس پہلو کو مدنظر رکہنا چاہئے کہ ہم سب مسلمان ہیں، ہم سب اہل قرآن اور اہل توحید ہیں اور ہمیں قرآن و حدیث کے لئے زحمت اٹہانی چاہئے اور ان کی خدمت کرنی چاہئے۔ (صحیفہ امام) 

وحدت مسلمین ایسا مسئلہ ہے، جس کی تاکید بارہا قرآن و سنت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ہوئی ہے، ہمارے پیارے نبی، ہادی برحق، پیغمبر آخر حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات باعث رحمت عالمین ہے، ان کا ذکر باعث رحمت ہے، ان کے میلاد کے موقع پر ان کی یاد کو قائم کرنا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات کو عام کرنا نہ صرف عقیدت و فرض شناسی ہی نہیں بلکہ آپ کا ہم پر یہ حق بھی ہے کہ آپ کے پیغام امن عالم و انسانیت اور پیغام وحدت و اخوت کو عام کریں، بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی (رہ) کے فرمان پر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت کے ایام میں پوری دنیا میں ہفتہ وحدت نہایت ہی شان شوکت کے ساتھ منایا جاتا ہے۔ بانی انقلاب و ایران کو یہ اعزا و افتخار حاصل ہے کہ وہ رسول اسلام کے پیغام اخوت و اتحاد بین المسلمین کو عام کرتے ہوئے ہر سال میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موقع پر ہفتہ وحدت کا سرکاری سطح پر اہتمام کرتے ہیں۔ اس مناسبت سے دنیا بھر میں تقریبات منعقد ہوتی ہیں۔

آج اگر ہم امت اسلامی پر نگاہ دوڑائیں تو دیکھا جاسکتا ہے کہ اسلامی امہ میں جس چیز کی سب سے زیادہ کمی ہے، وہ اتحاد و وحدت ہے، دشمنان اسلام نے بھی وحدت کو نشانہ بنا رکھا ہے اور عالمی کفر کی تمام تر مشینریاں مسلمانوں کے درمیان اختلافات کو ہوا دینے میں سرگرم ہیں۔ پاکستان ہو یا افغانستان، عراق ہو یا شام، لبنان ہو یا یمن، بحرین ہو یا دیگر کوئی اور ملک۔ ہم دیکھتے ہیں کہ سب سے زیادہ اتحاد و وحدت کو نشانہ بنایا جاتا ہے اور عالمی سامراج نے بھی مسلمانوں پر ضرب لگانے کے لئے اس راستے کو منتخب کر رکھا ہے۔ لہذا اس وقت جس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت ہے وہ اتحاد ہی ہے، اس راہ میں کامیابی کے لئے سب سے پہلے ایک مرکز پر جمع ہونا ضروری ہے، تاکہ وہاں سے کام کا آغاز کیا جائے۔

دوسری جانب دشمن اس درمیان سب سے زیادہ جہالت سے فائدہ اٹھاتا ہے اور اپنے وار وہاں آزماتا ہے، جہاں جہالت کا عنصر زیادہ ہو۔ بس یہاں اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ علم کے حصول کے مواقع فراہم کئے جائیں، علماء اپنا کردار ادا کریں اور اپنی ذمہ داریوں پر عمل کریں۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ عوام کو گمراہ کرنے میں بھی سب سے زیادہ کردار نام نہاد و بے عمل، جاہل علماء کا ہی ہے کہ جو عوام میں گمراہ کن پروپیگنڈہ کرکے عام لوگوں کو تفرقہ اندازی کیلئے تیار کر لیتے ہیں، جس کا نتیجہ امت کی وحدت کے پارہ پارہ ہونے کیساتھ بے گناہوں کے قتل کی صورت نکلتا ہے، ہماری عبادت گاہیں و مساجد ہمارے ہی خون سے رنگین ہوتی ہیں اور استعماری طاقتیں خوش ہوتی ہیں۔  بڑی طاقتوں سے جنگ و مقابلہ اور ان سے برائت و بیزاری بھی وحدت اسلامیہ کیلئے لازم و ملزوم ہیں۔

بانی انقلاب اسلامی امام خمینی (رہ) وحدت کے ہدف تک پہونچنے کے لئے سب سے اہم اسٹراٹجی (strategie) سپر طاقتوں اور سامراجی قوتوں سے ٹکر لینے اور ان طاقتوں کے اثر و رسوخ اور تسلط کو ختم کرنے کو جزو لاینفک سمجھتے ہیں۔ اس بارے امام خمینی (رہ )میں فرماتے ہیں:  دنیا کے مسلمانوں کو یہ جان لینا چاہئے کہ سپر طاقتیں ان کی دشمن ہیں اور ان کو فریب دے رہی ہیں، مگر یہ کہ اپنی آنکھوں سے اس کے برخلاف عمل کا مشاہدہ کریں اور اس کو محسوس کریں۔ (صحیفہ امام)

اس وجہ سے امام خمینی امریکہ اور اس کے علاقائی مرکز یعنی اسرائیل سے تعلق کو نہ صرف یہ کہ ایک قدرتمند ملک سے ایک نامشروع روابط کی نگاہ سے دیکھتے ہیں بلکہ عالم اسلام کی وحدت کے حوالے سے تدبیری جنگ سمجھتے اور اسلامی ممالک میں امریکہ کے اثر و رسوخ اور اس کی اجارہ داری اور فرمانروائی کو تسلیم نہ کرنے کو عالم اسلام کی حیات نو اور ان ممالک میں تفرقہ دور کرنے کا موجب جانتے ہیں۔

امام، منافع قومی اور ملی کے بجائے اسلامی مصلحتوں پر زور دیتے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ مختلف قوموں کے افراد اسلامی محور کے گرد جمع ہوکر ہی اپنے اسلامی منافع کو حاصل کرسکتے ہیں، اس بنا پر آپ یقین رکھتے ہیں کہ سپر طاقتوں اور داخلی تفرقہ کے عوامل و اسباب کی نفی کر کے اسلامی ملتوں کے درمیان وحدت کے موانع برطرف ہوسکتے ہیں اور مسلمانان عالم پھر سے ایک الٰہی حکومت کی عظمت و بزرگی اور شان و شوکت کا نظارہ کرسکتے ہیں۔  امت مسلمہ میں تفرقہ، جاہل لوگوں کی وجہ سے پیدا ہوا۔ آج ہم بھی اس تفرقہ میں پھنسے ہوئے ہیں۔ (صحیفہ امام، ج6، ص83)

ای میل کریں