امام خمینی(ره) نے انتظار کی اصطلاح کا حقیقی مفہوم بیان کرتے ہوئے اپنے سیاسی الٰہی وصیت نامے میں فرمایا: ’’۔۔۔ جس دن انشاء اللہ مصلح کل (امام مہدی (عج)) ظہور فرمائیں گے ، آپ یہ خیال نہ رکھیں اس دن کوئی معجزہ رونما ہوگا اور ایک ہی دن میں دنیا سدھر جائے گی، بلکہ سعی و کوشش اور قربانیوں سے ظالم کچل کر پس منظر میں چلے جائیں گے اور اگر آپ کی رائے بھی بعض عام گمراہ افراد کی طرح ہے کہ آنحضرت ؑ کے ظہور کے لئے کفر اور ظلم کے فروغ کی کوششیں بروئے کار لانا چاہئے تاکہ دنیا پر ظلم و ستم چھاجائے اور ظہور مہدی (عج) کے لئے فضا سازگار ہوجائے تو {اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن}‘‘۔( صحیفہ امام ، ج۲، ص ۲۰۲)
مفسرقرآن کریم اورشیعوں کےمرجع تقلید آیت اللہ جوادی آملی نےاپنی کتاب (امام مہدی علیہ السلام موجود موعود) میں مکتب اہل بیت علیہم السلام میں انتطارکے مفہوم کے بارے میں لکھا ہےکہ انتظارکے حقیقی معنیٰ کی وضاحت کے لیےمتعدد روایات موجود ہیں کہ جن میں سے ایک روایت یہ ہے کہ ابوبصیر حضرت امام صادق علیہ السلام سے اس طرح نقل کرتے ہیں :(لیعدن احدکم لخروج القائم ولو سهما۔ ۔ ۔) بنابریں جو شخص حقیقت میں امام زمانہ علیہ السلام کا منتظرہونا چاہتا ہے ضروری ہے کہ وہ اپنے آپ کو تیار کرے اگرچہ ایک تیر کو آمادہ کرکے۔
اس روایت میں غوروفکر کرنےمعلوم ہوتا ہے کہ انسان جب تک جہاد اورجنگ کے میدان کا مرد نہ ہو وہ اپنےآپ کو آنحضرت کے سچے اورحقیقی منتظرین کے زمرے میں قرارنہیں دے سکتا ہے اور یہ وہی بلند معنیٰ ہےکہ ماہ مبارک رمضان کی راتوں کی نورانی دعاوں میں جس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے:(وقتلا فی سبیلک مع ولیک فوفق لنا)۔ جو شخص اپنے آپ کو حضرت ولی عصرعلیہ السلام کےظہورکا منتظرسمجھتا ہےاوران کے ذریعے امورکی اصلاح کی امید رکھتا ہے لیکن خود اہل جہاد نہیں ہے اس نے بیہودہ بات کی ہےاورحقیقت میں وہ منتظرنہیں ہے کیونکہ وہ چاہتا ہے کہ اس راہ میں اسے کسی قسم کی مصیبت اورمشکل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ جبکہ امام زمانہ علیہ السلام کے ظہور کے حقیقی انتظار کا معنی ہرلحاظ سے اپنے آپ کو تیارکرنا ہے۔
بے شک ظہورکےبعد امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف جنگ کریں گے، بنابریں ایسے افراد ان کی مدد کرسکیں گے کہ جو اس میدان کے تجربہ کارہوں گے اوراگرکوئی جنگ کا ماہرنہ ہوا تو وہ بیکار ہے۔ علمی جہاد کے میدان میں قلم اورخطابت کے اسلحہ سے لیس اورعملی میدان میں جنگ وجہاد کے اسلحہ اوراس کے نئے نئے طریقوں کی تعلیم حاصل کرنا حقیقی انتظارکے لیے لازم وضروری ہے۔اب اگر وہ دونوں میدانوں کا مجاہد ہو اورمناسب اسلحہ سے لیس ہو تو دونوں میدانوں کے اجروثواب سے ہمکنار ہوگا۔(طوبی لھم وحسن ماب) ۔ البتہ امام زمانہ علیہ السلام کی کامیابی کا ایک اہم حصہ انسانی معاشرے کی ثقافتی ترقی کے مرہون منت ہے۔
نتیجہ یہ کہ مکتب اہل بیت علیہم السلام میں امام زمانہ علیہ السلام کے ظہورکےانتظارکا عمیق معنیٰ یہ ہے کہ ایک طرف ہدایت کےائمہ کی سنت کی پیروی کرنا ہے اوردوسری جانب اللہ کی راہ میں جہاد کے لیے علم اورایمان کےاسلحہ سے مسلح ہونا ہے۔
امام باقرعلیہ السلام نے فرمایا:(رحم الله عبدا حبس نفسه علینا! رحم الله عبدا أحیا أمرنا) یہ نورانی کلام ثقافتی میدان میں حقیقی انتظار کے جلوہ کی واضح علامت ہے۔ کیونکہ منتظرانسان کو اس میدان میں اپنے آپ کو الہی اوامر کے دائرے میں قراردینا چاہیے اورقرآن وعترت کے دستورات کی مخالفت نہیں کرنی چاہیے۔: انتظارکی حقیقت یہ ہے کہ امام زمانہ علیہ السلام کا منتظر،معتقد اورعارف اپنی معرفت کی بنا پران کےامرکا احیاء کرتا ہے اوراپنے آپ کو ان کے اوامر کے دائرے میں قراردیتا ہے تاکہ اس کے باطن سے فیض الہی کا چشمہ پھوٹ کراس کے ظاہر میں جلوہ کرے۔
، ، ، ، ، ، ، ، ، ، ،