جب ولایت فقیہ کا درجہ امور حسبیہ اور وہ بھی ممنوع التصرفات افراد کے امور اور سہم امام (ع) کے دستگردان کی حد تک نیچے آچکا تھا جب حوزہ ہائے علمیہ (دینی تعلیمی مراکز) میں اسلامی حکومت کی بحث ترک کردی گئی تھی اس عالم میں حضرت امام خمینی (ره) نے حوزہ علمیہ نجف میں اس کی شمع روشن کی۔ اس زمانے میں حوزہ ہائے علمیہ خصوصاً حوزہ نجف کی فضا پر اس حد تک تاریکی اور تیرگی چھائی ہوئی تھی کہ حکومت اسلامی کو موضوع سخن قرار دینا ایک جانانہ اور فداکارانہ جہاد گنا جاتا تھا۔
اسلامی حکومت کی تشکیل ایک غیر دینی بلکہ خلاف دین آرزو سمجھی جاتی، کیونکہ ان کے نزدیک انبیاء اور ائمہ (ع) کا مقام اہداف ومقاصد اور لائحہ عمل سے منزہ تھا۔ اسی وجہ سے ان میں سے بعض افراد کہ جنہوں نے ’’شہید جاوید‘‘ نامی کتاب کے خلاف شور مچایا اور اسلام کے نابود ہونے کا ڈھنڈورا پیٹا ان کا کہنا یہ تھا کہ اس کتاب میں اسلامی حکومت کو تحریک امام حسین (ع) کا ایک مقصد اور نصب العین کیوں قرار دیا گیا ہے؟ جبکہ حضرت امام حسین (ع) کی شان ومنزلت اس سے بالاتر ہے کہ آپ (ع) حکومت کے حصول کیلئے کوئی اقدام فرماتے۔
ایک عالم نے حضرت امام حسین (ع) کا دفاع کرتے ہوئے لکھا تھا: ’’نبوت ورسالت الٰہی کا مقام حکومت وسلطنت کے حساب سے الگ ہے۔ انبیاء (ع) کو انتہائی غربت اور تنگدستی کے عالم میں ، اقتدار سے تہی داماں ہوتے ہوئے رسا زبان اور دلچسپ بیان کے ساتھ ہدایت کرنا ہوتی ہے جبکہ بادشاہ کو طاقت وتلوار کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ بنابریں رسول (ص)اور اس کا وصی (ع) رسالت اور وصایت کے ساتھ ساتھ ہرگز حکومت وسلطنت نہیں کرتا ہے‘‘۔
ایک اور عالم نے دوسرے عالم پر تنقید کرتے ہوئے لکھا: ’’انبیاء (ع) کی بعثت تشکیل حکومت کیلئے نہیں تھی۔۔۔ بلکہ یہ کہنا چاہئے کہ انبیاء (ع) اور ان کے جانشینوں کی شان اس سے بالاتر ہے کہ وہ حکومت تشکیل دیں ۔۔۔‘‘۔
حالانکہ طاغوت کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا اور عادل حکومت کی تشکیل کی کوشش تمام انبیاء (ع) کے نصب العین میں سرفہرست تھی حتی کہ سید الشہداء (ع)، کہ جنہیں اپنی تحریک کے انجام کی مکمل آگاہی حاصل تھی، نے بھی اسی مقصد کے پیش نظر اپنی تحریک جاری رکھی۔
حضرت امام خمینی (ره) نے مذکورہ باطل نظریات کے مقابلے میں انبیاء (ع)اور ائمہ (ع) کی سیرت کے تناظر میں حکومت کے مقام کا جائزہ لیا۔ ’’سید الشہداء (ع) اور تمام انبیاء (ع) کی سیرت یہ رہی ہے کہ وہ ظلم کے مقابلے میں عادل حکومت کے قیام کے خواہاں تھے‘‘۔(صحیفہ امام، ج ۲۰، ص ۱۹۱)
’’سید الشہداء (ع) حکومت کیلئے نکلے تھے۔ درحقیقت آپ اسی مقصد کے پیش نظر چلے تھے اور یہ باعث افتخار ہے‘‘۔(صحیفہ امام، ج ۲۰، ص ۱۹۰)
ان مردہ افکار اور سن کردینے والے نظریات کے تسلّط نے حضرت امام خمینی (ره) کی جانب سے پیش کردہ اسلامی حکومت کے نظرئے کو منفی رد عمل سے دوچار کردیا کیونکہ اس طرح کے موضوع کا اٹھایا جانا حوزہ علمیہ نجف کی معمولی کی مباحث سے ہٹا ہوا اور بہت سے علماء کی سمجھ سے بالاتر تھا۔
جمود اور رجعت پسندی کا سایہ اس حد تک حوزہ پر پھیلا ہوا تھا کہ اگر کوئی جلیل القدر مرجع حکومت کے بارے میں اسلامی نقطہ نظر پیش کرنا چاہتا تو ناچار اس کو ’’تقیہ‘‘ کرنا پڑتا کیونکہ سامراجی ثقافت کا اثر ورسوخ اصلی اور خالص اسلام کے پیش کرنے سے مانع تھا۔ حضرت امام خمینی (ره) نے اسلامی حکومت کی ابحاث میں اس بات کو صراحت کے ساتھ بیان کیا ہے کہ اسلامی حکومت کے حوالے سے تقیہ کرنا پڑتا ہے۔
’’ان کی چال یہ ہے کہ ہم کو پسماندہ رکھیں تاکہ خود ہمارے ذخائر سے فائدہ اٹھائیں ۔ ہم بدحال اور بے بس رہیں ، ہمارے غریب لوگ اسی بدبختی کا شکار رہیں اور اسلام کے سامنے سرتسلیم خم نہ ہوں جس نے غربت اور غرباء کا مسئلہ حل کردیا ہے۔ وہ خود اور ان کے پٹھو بڑے بڑے محلوں میں رہیں اور عیش کوشی کی زندگی بسر کریں ۔ یہ ایسی چالیں ہیں کہ جن کا سلسلہ دینی اور دنیاوی درسگاہوں تک بھی پہنچ چکا ہے۔ نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ اگر کوئی اسلامی حکومت کے بارے میں گفتگو کرنا چاہے تو اسے تقیہ سے کام لینا اور سامراجیوں کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے‘‘۔(حکومت اسلامی، ص ۱۲)
حضرت امام خمینی (ره) کے سلسلہ دروس کے ساتھ ہی سامراج کے پٹھووں اور دقیانوس افراد نے ماحول بگاڑنے اور تہمت لگانے کا آغاز کردیا تاکہ جیسے بھی بن پڑے آپ (ره) کے سدّ راہ ہوسکیں ۔۔۔ آپ (ره) نے اسلامی حکومت کے موضوع پر جو دروس دئے ان میں سے دسویں درس میں آپ نے ان پر اسرار حرکتوں اور ماحول خراب کرنے کی کاروائی کو بے نقاب کیا جس کا مقصد آپ کے ان دروس کی بند کرنا تھا۔ ’’نجانے میری باتیں بعض افراد پر اتنی زیادہ گراں کیوں گزریں کہ اعتراض کرتے ہوئے کہنے لگے کہ یہ ایسی باتیں چھوڑ کیوں نہیں دیتا؟ یہ فقط مسئلہ بیان کر کے آگے کیوں نہیں بڑھ جاتا؟‘‘۔( نہضت امام خمینی، ج ۲، ص ۴۹۶)
اور اس سے زیادہ شرمناک کام یہ کیا گیا کہ چند مشتبہ افراد کو یہ ذمہ داری سونپی گئی کہ وہ شور وغوغا مچا کر یہ افواہ پھیلا دیں کہ ’’خمینی کے حامیوں نے اسلامی حکومت پارٹی بنالی ہے‘‘ اور دیگر کچھ لوگ اس کی تردید کرنے لگے۔۔۔ نجف کی رجعت پسندی کے اس قسم کے ہتھکنڈے نجف کے سوئے ہوئے حوزہ میں اسلامی حکومت کی بحث کے گہرے روشنی ڈالنے والے اور آگاہ کرنے والے اثر کا پتہ دیتے ہیں ۔ آپ (ره) نے جب ’’اسلامی حکومت پارٹی‘‘ کی تشکیل کی افواہ سنی تو فرمایا: ’’چونکہ ہم نے حوزہ ہائے علمیہ سے اپیل کی ہے کہ اسلامی حکومت پر بحث وتمحیص کریں اور اس کی تشکیل پر غور وغوض کریں اس لئے دشمن پر وحشت طاری ہوچکی ہے اور وہ اس قسم کی افواہوں کے ذریعے ایسا ماحول پیدا کردینا چاہتے ہیں کہ کوئی شخص ’’اسلامی حکومت‘‘ کا نام تک لینے کی جرأت نہ کرسکے‘‘۔(نہضت امام خمینی، ج ۲، ص ۵۰۹)