سرمایہ داروں اور مستکبرین

سرمایہ داروں اور مستکبرین کی حقیقی تصویر

ممالک پر اغیار کے تسلط کی وجہ عیش کوش امرا اور بڑے سرمایہ دار ہی رہے ہیں

چونکہ ناداروں  کی مظلومیت کو اس وقت تک بیان کیا ہی نہیں  جا سکتا ہے جب تک اس ظلم کی وضاحت نہ کی جائے جو سرمایہ داروں  اور صاحبان طاقت نے تاریخ کے مختلف ادوار میں  ان پر ڈھایا ہے۔ اس لئے امام خمینی(ره) نے ناداروں  اور مستضعفین کے مثبت چہرے کی تصویر کشی کے ساتھ ساتھ سرمایہ داروں  اور مستکبرین کے حقیقی چہرے کا نقشہ کھینچنے کی بھی وسیع کوشش کی۔  سرمایہ داروں  کا حقیقی چہرہ دکھانے کے سلسلے میں  بنیادی ترین نکتہ یہ ہے کہ امام خمینی(ره)  نے سرمایہ داروں  اور مستکبرین کے چہرے سے اسلام کی حمایت کا نقاب ہٹا دیا اور ان کے منظور نظر اسلام کو مستکبرین کے اسلام ، بے درد  آسائش پسندوں  کے اسلام،  منافقین کے اسلام ، راحت پسندوں  کے اسلام اور موقع پرستوں  کے اسلام کے مترادف قرار دیا اور اس طرح جعلی دشمنوں  کے لئے قابل قبول ہے اور وہ حقیقی اسلام اور موقع پرستوں  کے اسلام کے مترادف قرار دیا اور اس طرح جعلی اسلام کو ’’امریکی اسلام‘‘ کا نام دیا ،  یعنی آپ کے نزدیک یہ ایسا اسلام ہے جو مسلمانوں  کے سب سے بڑے دشمنوں  کے لئے قابل قبول ہے اور وہ حقیقی اسلام کہ جو ناداروں  کا اسلام، مستضعفین کا اسلام،  تاریخی ادوار میں  ظلم جھیلنے والوں  کا اسلام،  مجاہد عرفا کا اسلام،  نیک فطرت عارفون کا اسلام،  غرض خالص محمدی ؐ  اسلام ہے کے مقابلے کے لئے ایک آلہ و وسیلے کے طور رپ استعمال کر رہے ہیں ۔ 

امام خمینی(ره)  نے سرمایہ داروں  اور مستکبرین کا نقشہ کھینچنے کے لئے ان کی دیگر خصوصیات بھی بیان کی ہیں  یہاں  ہم ان میں  سے بعض اہم کی جانب اشارہ کر رہے ہیں:

محلوں  میں  رہنے والے برے اخلاق کے مالک ہیں  اور وہ اسے معاشرے میں  پھیلاتے ہیں ۔  سرمایہ دار اور امراء عوام کی علمی ترقی کی راہ میں  رکاوٹیں  ڈالتے ہیں ۔  (صحیفہ امام، ج 8، ص7)

سرمایہ دار ہمیشہ اپنی دولت کے تحفظ اور اس میں  اضافے کی خاطر عوام کا مفادات کا عالمی لٹیروں  کے ساتھ سودا کرتے اور ظالم طاقتوں  کے ساتھ تعاون کرتے ہیں ۔  (صحیفہ امام، ج۶، ص  ۶۰)

جب مستضعفین نے انقلاب کی کامیابی اور دشمن کی یلغار کی روک تھام کے لئے اپنے خون کا نذرانہ پیش کیا اس وقت مستکبرین اور امراء یا تو اپنے گھروں  میں  گھسے بیٹھے تھے یا انہوں  نے راہ فرار اختیار کی تھی یا بیرون ملک چلے گئے تھے۔  (اخلاق ناصری، خواجہ طوسی، ۱۳۶۰، ص ۷۰ و ۷۱)

محل میں  رہنے والے جھونپڑیوں  میں  رہنے والوں  قیاس کئے جانے کے قابل نہیں  ہیں ۔ جھونپڑی میں  رہنے والوں  کے سر کا ایک بال محلوں  میں  رہنے والوں  پر ترجیح رکھتا ہے۔  (صحیفہ نور، ج۱۰، ص ۲۷۶)

عالمی لٹیروں ،  سرمایہ داروں  اور ان سے وابستہ افراد یہ توقع رکھتے ہیں  کہ مسلمان ان کی جانب سے اسلام اور اسلامی امت پر روا رکھنے والے ہر ظلم پر خاموشی اختیار کئے رکھیں ۔  (صحیفہ امام، ج۶، ص ۱۶۷)

 محل میں  رہنے والوں  اور آسائش پسندوں  کے دل بری طرح متزلزل ہیں ۔  (صحیفہ امام، ج۷، ص  ۲۷)

ممالک پر اغیار کے تسلط کی وجہ عیش کوش امرا اور بڑے سرمایہ دار ہی رہے ہیں ۔  (صحیفہ امام، ج۵، ص ۲۴۱)

سرمایہ دار اور عیش پسند امراء اپنے سے بڑی طاقتوں  کے سامنے سر جھکائے کرتی رہی ہیں ۔ لیکن کمزوروں  اور اپنی ملت پر ظلم و ستم کرتے ہیں ۔  (صحیفہ امام، ص ۱۶۸ اور ص ۲۰)

جونک کی خصوصیات کے حامل سرمایہ داروں  اور صاحبان دولت و طاقت کے مکروہ چہروں  کی اصلیت و حقیقت بیان کرنے کے بارے میں  حضرت امام خمینی(ره)  کی زبان مبارک اور قلم سے جو کچھ بیان ہوا ہے اس کا جائزہ لینے سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ تاریخی ادوار میں  اقوام پر ہونے والے تمام مظالم اور انسانی معاشروں  پر ہونے والے ہر طرح کے ظلم و ستم کی وجہ یہی ہے کہ مذکورہ طبقہ حکومت پر قابض رہا ہے۔  آپ نے اس ملک پر سرمایہ داروں  اور محل میں  رہنے والوں  کے مظالم کو یوں  بیان کیا ہے:

’’تاریخ میں  حکومتیں  ہمیشہ منہ زوروں  کی حمایت کرتی رہی ہیں  ۔ آپ گزشتہ ڈھائی ہزار سال کے تاریک عہد کی ہر حکومت کا جائزہ لیں  جو حکومت چاہے جتنی بھی عادل نظر آتی ہو جس قدر بھی نیک دکھائی دیتی ہو کا جائزہ لیں ۔۔۔  آپ کو ایک بھی حکومت ایسی نہیں  ملے گی جس نے غریبوں  کی خدمت کی ہو۔  گلی کوچوں  کے عوام کی خدمت کی ہو۔ ناداروں  کی خدمت کی ہو۔ ہر حکومت نے جائیدادوں  کے مالکوں  کی حمایت کی ، با اثر لوگوں  کی حمایت کی اور سرمایہ داروں  کی خدمت کی‘‘۔  (کشف اسرار، ص ۶)

ای میل کریں