امام خمینی(ره) نے اسلامی تحریک کی ابتداء ہی سے محروموں کا حقیقی چہرہ پیش کرنے اور ان کے چہرے سے اجنبیت اور مظلومیت کی گرد ہٹانے کی وسیع پیمانے پر کوشش کی اور آپ نے اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد اسلامی جمہوریہ کی حکومت میں بھی اپنی یہ کوشش جاری رکھی۔ اس امر کو بخوبی ادراک کیا جا سکتا ہے کہ امام خمینی(ره) کے پیش نظر اس مسلسل کوشش کے دو مقاصد تھے: ایک تو آپ اس بات کو واضح کرنا چاہتے تھے کہ سرمایہ داروں ، امراء اور طاغوتوں کے پروپیگنڈے کے بر خلاف محروم لوگ ایسے شریف النفس انسان ہیں جن کو مکمل خود اعتمادی اور روحانی سکون حاصل ہے اور انہوں نے مادیات کو خاطر میں نہ لانے کی وجہ سے انسانیت کی بہت زیادہ خدمت کی ہے ۔ دوسرے یہ کہ آپ محروموں کو بھی اسی نکتے کی یاد دہانی کرانا چاہتے تھے اور ان کے عقیدے کو تقویت بخشنا چاہتے تھے۔
ان دو نکات کے سلسلے میں امام خمینی(ره) کی تاکید اس امر کی نشاندہی کرتی ہے کہ آپ محرموں کو مسلط کردہ حقارت کہ جو صدیوں کے دوران کمزرو طبقے کے سلسلے میں اختیار کئے جانے والے توہین آمیز کلام اور ذلت آمیز روئیے کا نتیجہ تھی، کے جوئے سے نجات دلانے کو بہت زیادہ اہمیت دیتے تے اور چونکہ آپ کے نزدیک اس توہین میں سرمایہ داروں اور امراء کے غلط پروپیگنڈے کا بہت دخل تھا اس لئے آپ قائل تھے کہ اس ظلم عظیم کا مقابلہ کرنے کے لئے سب سے پہلا اقدام محروموں کا مثبت چہرہ پیش کرنے سے عبارت ہے اور یہی ان کا اصلی چہرہ اس مقصد کے پیش نظر آپ نے اپنی تقاریر اور پیغامات میں بہت زیادہ نکات اٹھائے۔ ان میں سے چند اہم نکات کی یہاں اشارہ کیا جارہا ہے:
جن عظیم دانشوروں نے علم اور تمدن کے حوالے سے معاشرے کی لائق تحسین خدمات انجام دی ہیں ان کا تعلق محروم لوگوں سے تھا۔ (صحیفہ امام، ج۱۹، ص ۱۵۷)
انبیاء (ع) غریب طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔ (صحیفہ امام، ج ۴، ص ۵۹)
تمام ادیان کا آغاز غریب لوگوں سے ہوا ہے۔ (صحیفہ امام، ج ۶، ص ۱۸۹)
غریبوں نے تمام ادیان کی خدمت کی ہے۔ (صحیفہ امام، ج ۶، ص ۱۸۹)
اسلامی انقلاب محروم طبقے کا مرہون منت ہے۔ (صحیفہ امام، ج۱۴، ص ۱۶۴)
کچے مکانوں اور جھونپڑیوں میں رہنے والوں کے سر کا ایک بال تمام محلات اور محلات میں رہنے والوں سے افضل ہے۔ (صحیفہ امام، ج۲۰، ص ۱۳۰)
محروموں کی خدمت کرنے سے بڑی عبادت کوئی نہیں ہے۔ (صحیفہ امام، ج۲۰، ص ۱۳۰)
جس حکومت کا سہارا محروم اور غریب لوگ ہوں وہ سپر طاقتوں سے نہیں ڈرتی۔ (صحیفہ امام، ج۲، ص ۵۴)
نادار چونکہ مادیات کو پیش نظر نہیں رکھتے اس لئے وہ اپنے مستقبل کے بارے فکر مند نہیں ہوتے ہیں ، وہ طاقتوں کے سامنے ڈٹ جاتے ہیں اور کسی دھمکی سے نہیں ڈرتے ہیں ۔ (صحیفہ امام، ج۱۷، ص ۲۱۸ و ۲۱۹)
مزدوروں کا ایک دن سرمایہ داروں کی عمر کے بڑے حصے سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ (صحیفہ امام، ج۱۶، ص ۱۳۹)
غرباء اور دیندار لوگ ہی اس انقلاب کو برپا کرنے اور اس کو قائم رکھنے والے ہیں ۔ (صحیفہ امام، ج ۲۰، ص ۲۳۵)
مشرق و مغرب کا مقابلہ ناداروں کا ہی رہین منت ہے۔( صحیفہ امام، ج ۱۷، ص ۲۴۶)
اسلامی جمہوریہ کے تمام حکام پر کمزور طبقے کی فداکاری کا احسان ہے۔ (صحیفہ امام، ج ۱۵، ص ۲۲۲)
یہ ان نکات کا فقط ایک حصہ ہے جو سرمایہ داروں اور صاحبان طاقت ہر ناداروں اور کمزوروں کی برتری اور ان کے مادی و معنوی حقوق کی بازیابی کے مقصد کے پیش نظر امام خمینی(ره) کی زبان اور قلم سے بیان ہوئے ہیں ۔ اس کے علاوہ یہ بیانات غریبوں اور ناداروں پر اسلامی جمہوریہ کے بانی کے بے انتہا اعتماد کی بھی غمازی کرتے ہیں ۔ جیسا کہ آپ نے صراحت کے ساتھ بھی فرمایا ہے کہ :’’صرف وہی لوگ آخر تک ہمارا ساتھ دیں گے جو غریب ، ناداری اور افلاس کا مزہ چکے چکے ہیں ‘‘۔ (صحیفہ امام، ج ۲۰، ص ۲۳۵)
امام خمینی(ره) نے مذکورہ مطلب کو سب تک پہنچانے کے لئے بہت زور دیا یہاں تک کہ آپ نے تحریک کے اسلام ہونے کے بیان کے موقع پر اس بات پر زور دیا کہ اس تحریک کے اسلامی نعرے مستضعفین کے مطالبات کے آئینہ دار ہیں ۔ زیادہ اہم نکتہ یہ ہے کہ آپ غریبوں ، ناداروں اور مستضعفین پر سرمایہ داروں کی عدم برتری کے بیان کے لئے موضوعیت کے قائل تھے۔ آپ نے بارہا ان باتوں کے ذکر کرنے اور جھونپڑیوں میں رہنے والوں کو مملکت کا سرمایہ قرار دینے کے علاوہ، حکام، تمام مقررین اور مصنفین کو بھی تاکید کی کہ اس مسئلے کو اہمیت دیں اور ہمیشہ اس کو بیان کریں ’’اس حقیقت کے بیان سے کہ دولت کی بنا پر دولتمندوں کو غریبوں پر کوئی برتری حاصل نہیں ہے اور ہرگز ان کو اولویت حاصل نہیں ہوگی۔ یقیناً ناداروں کی پوشیدہ اور پامال شدہ صلاحیتوں کے نکھار کا راستہ ہموار ہوگا‘‘۔ (صحیفہ امام، ج ۲۰، ص ۱۲۸)