اسلام میں مسجد کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ حضور اکرم (ص) کی حکومت کا مرکز مدینہ منورہ تھا اور اس شہر کا مرکز وہ مسجد تھی جس کی بنیاد آپ (ص) نے مدینہ پہنچتے ہی رکھی تھی۔ پیغمبر اکرم (ص) اسی مسجد میں اہم ترین فیصلے اور بنیادی مسائل طے کرتے تھے۔ دوسرے الفاظ میں لوگوں کی دنیوی سعادت اور اخروی فلاح کا سرچشمہ یہی مسجد تھی۔
حضور اکرم (ص) کی رحلت کے المناک واقعے اور حضرت علی (ع) کی حکومت کے جلد خاتمے کے بعد، مسجد کی مرکزیت کی اس اچھی مذہبی روایت کو نظر انداز کردیا گیا جس کی متعدد برکات و ثمرات سے امت مسلمہ مستفید ہوتی تھی اور یہ سلسلہ پوری تاریخ میں جاری رہا۔ اگرچہ تاریخ میں مختلف اسلامی ممالک کی مساجد نماز جماعت کے قیام اور علمی و فقہی مباحث جیسی فتوحات کا مرکز رہی ہیں لیکن ان ممالک پر حاکم بظاہر اسلامی حکومتوں کی رکاوٹوں کی وجہ سے ملکی حالات اور سیاسی مسائل میں ان کی تاثیر رفتہ رفتہ زائل ہوتی گئی اور صرف عبادت کے مراکز یا تاریخی آثار کی صورت میں ان کو اہمیت دی جانے لگی۔ ہم جرأت سے کہہ سکتے ہیں کہ جب سے دیانتدار علمائے اسلام کی جانب سے نماز جمعہ کے خطبوں اور دو نمازوں کے درمیان خطابوں میں معاشرے کے روز مرہ مسائل اور مقدر ساز سیاسی امور پر بحث و تمحیص کا سلسلہ ختم ہوا ہے بدبختی اور افلاس نے اسلامی معاشرے کو گھیر لیا ہے اور معاشرتی امور میں مسجد کی مرکزیت اسلامی ممالک کے فاسق و فاجر حکام کی سرد مہری کی شکار ہوگئی ہے۔
آج اگر ہم مختلف اسلامی ممالک کا سفر کریں تو ہمیں کئی شاندار مساجد نظر آئیں گی جن میں کہیں روزانہ پانچ وقت نماز جماعت اور وعظ و نصیحت اور تقریروں کا اہتمام کیا جاتا ہے لیکن ان مقدس مقامات میں لمحہ بھر غور کرنے اور مقررین کی تقریریں سننے سے یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ مقررین عالم اسلام کے حالات پر اس طرح روشنی ڈالنے سے کتراتے تھے جس سے عالمی استکبار اور اس کے سرغنہ عالمی لٹیرے شیطان اعظم امریکہ کو خطرات لاحق ہوں ۔
البتہ بعض اسلامی ممالک میں حاکم طاغوتی طبقے کی مخالفتوں اور سختیوں کے باوجود مسجدوں سے تعلق رکھنے والے ایک حکومتی اصول کے طور پر مسجدوں کی مرکزیت کی مذہبی روایت کے احیاء کے درپے ہیں اور اسلامی انقلاب کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اس روایت کے احیا کی مساعی کر رہے ہیں ، گویا انہوں نے حضرت امام خمینی(ره) کے وصیت نامہ صحیفہ انقلاب پر توجہ دی ہے ، جس میں انہوں نے فرمایا ہے: ’’تمام مسلمانوں اور مستضعفین عالم کو میری وصیت یہ ہے کہ آپ لوگوں کو بیٹھ کر اس بات کا انتظار نہیں کرنا چاہئے کہ آپ کے ملکی حکام اور عہدیدار یا غیر ملکی طاقتیں آپ کے لئے خود مختاری اور آزادی کا تحفہ لائیں ‘‘۔
ایران کی مسلمان قوم کی اسلامی تحریک میں حضرت امام خمینی(ره) کی قیادت میں عظیم اسلامی انقلاب کے عمل کو تیز کرنے کے لئے اہم ترین فیصلے اور ان پر عمل در آمد مسجدوں میں کیا گیا، در حقیقت ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ عظیم اسلامی انقلاب کے واقعات میں مسجدیں ، طاغوتی حکومت کے خلاف مقابلے کا اصل مراکز تھیں جن کا اس انقلاب میں اہم کردار تھا یہاں تک کہ حضرت امام خمینی(ره) فرماتے ہیں : ’’مسجد مورچہ ہے ، مورچوں کی حفاظت کریں ‘‘۔
انقلابی عناصر اور مسلمان قوم کے مختلف طبقات کی جد و جہد کے عمل میں مساجد کے اثرات اتنے زیادہ تھے کہ طاغوتی حکومت کے مسلح اداروں نے کئی دفعہ مساجد کے تقدس کو پامال کرتے ہوئے ان پر حملہ اور انقلابی افراد کو شہید کیا۔ چنانچہ تاریخ مسجد گوہر شاد مشہد، مسجد کرمان، مسجد شیراز اور مدرسہ فیضیہ کے خونی سانحوں اور اسی طرح قم، تہران، تبریز اور مشہد وغیرہ کے علمائے کرام اور اہل مسجد کی مکرر گرفتاریوں کو نہیں بھولی ہے۔
حضرت امام خمینی(ره) کو اس بات پر یقین تھا کہ جمعہ و جماعت کی نمازوں کے سیاسی پہلو اور مسجد کی مرکزیت کو ایک بار پھر زندہ کرنا چاہئے کہ اس کے ساتھ ساتھ وہ ہمارے ملک کے حالات کی خاص موشگافی کرتے تھے اور اسی طرح اندرون ملک کے ان لوگوں کو جنہیں انقلاب کے اہداف و مقاصد کے بارے میں خاص اطلاعات حاصل نہیں تھیں انہوں نے سمجھا دیا کہ اسلامی جمہوریہ کے مقدس سورج کے طلوع کے ساتھ کس طرح طاغوتی حکومت کی سیاہ رات ڈھل گئی، اس طرح انہوں نے عملی طور پر دین کے سیاست سے جدا نہ ہونے کی حقیقت سے دنیا والوں کو آگاہ فرمایا۔
مساجد جو انقلاب سے پہلے مسلمان قوم کے غیض و غضب کے طوفان کا سرچشمہ تھیں ، اسلامی انقلاب کے بعد انقلاب اور اعلیٰ الٰہی اقدار و ثمرات کے تحفظ کے مراکز میں تبدیل ہوگئیں ، چنانچہ مسلط کردہ جنگ کے شروع ہوتے ہی لاکھوں مومن نوجوان اسلامی ملک کی سرحدوں کی حفاظت کے لئے اپنے قائد کی ندا پر لبیک کہتے ہوئے جنگ کے محاذوں کی طرف بڑھے اور روحانی و ملکوتی لمحات میں ان کی ارواح آسمانوں کی طرف پرواز کر گئیں ۔
آج کل مساجد اغیار کی ثقافتی یلغار کو روکنے کے مستحکم بند ہیں اور دشمن مسجد سے زیادہ کسی اور چیز سے نہیں ڈرتا ۔
(نماز جمعہ کے دوران) تہران یونیورسٹی میں دنیا کی بڑی بڑی خبررساں ایجنسیوں کے نمائندوں کے ذریعے ان عبادتی سیاسی تقریبات کی رپورٹنگ، رپورتاژ عالمی سطح پر ان تقریبات کی عظمت واہمیت کی نشاندہی کرتی ہے ، چنانچہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ دنیا بھر کے کسی بھی الٰہی دین کی عبادتی تقریبات اس طرح ہر ہفتے دنیا والوں کی توجہ اپنی طرف مبذول نہیں کرا سکتیں ۔