اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ تکفیریت کا ہر وار مسلمانوں پر ہی پڑتا ہے۔ تکفیری عناصر مسلمانوں ہی کو بموں اور گولیوں کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ تمام تر دہشت گردی کا ہدف مسلمان بنے ہوئے ہیں۔ مسلمان علماء محفوظ ہیں نہ عوام۔ یہی نہیں بلکہ اسلامی شعائر اور اسلام کے نام پر قائم شدہ مراکز کو بھی تکفیری عناصر تباہ کر رہے ہیں۔ صحابہ کرام(رض) اور اہل بیت(ع) کے مزارات بھی ان سے محفوظ نہیں۔ دنیا بھر میں اولیاء، عرفاء اور صوفیاء کے مزارات پر بھی تکفیریوں کے حملوں کا سلسلہ جاری ہے۔ پاکستان کی سرزمین بھی انتہا پسندوں، دہشت گردوں اور تکفیریوں کے ہاتھوں لہو لہان ہے۔ پاکستان کی معیشت ان عناصر سے گہرے زخم کھا چکی ہے۔ خوف اور وحشت کے سائے پورے پاکستان پر منڈلا رہے ہیں۔ اپنے ہی ملک میں لاکھوں عوام پناہ گزینوں کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ مذہبی اجتماعات محفوظ ہیں اور نہ مذہبی تقریبات۔
رہبرانقلاب اسلامی نے فرمایا ہے کہ تکفیری فکر پر کاربند ٹولوں کی ظاہری صورت اسلامی ہے لیکن عملی طور پر ـ عالم اسلام کے خلاف ریشہ دوانیوں میں مصروف ـ بڑی استعماری اور استکباری قوتوں کی خدمت کررہے ہیں۔
آیت اللہ مکارم نے "داعش" کے ذریعہ استعمال ہونے والے نام "عراق و شام میں اسلامی حکومت" کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: داعش نہ تو کوئی "حکومت" ہے اور نہ ہی"اسلامی" ہے۔ لیکن اس کے باوجود دشمنان اسلام مسلسل اس نام کو دھراتے ہیں تاکہ اسلام کو بدنام کر سکیں۔
آیت اللہ سبحانی نے دھشتگردی سے مقابلے میں عالمی سامراج کے دوغلے پن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ہمارے دور کے عجائبات میں سے یہ ہے کہ ایک طرف تو مغربی ممالک آئے دن کسی ملک میں دھشتگردی کی مذمت کرتے ہوئے اسے اسلام سے بیگانہ بتاتے ہیں تو دوسری طرف اسی وقت ایک دوسرے ملک میں دھشتگرد ٹولیوں کے کرتوتوں کو صحیح ٹھہراتے ہیں۔
افغانی عالم دین شیخ توانا نے کہا: وہ لوگ جو جہاد و شہادت کے مفاہیم سے بے بہرہ ہیں انہیں اس میدان میں سرگرم ہونے کی اجازت نہیں دی جانی چاہئے۔ یہ لوگ کج فکر ہیں۔ حسن البنا، مودودی اور آیۃ اللہ خمینی جیسے افراد وہ تھے جو اسلامی تحریک کو زندہ رکھنے کے لئے جد و جہد کیا کرتے تھے۔
سید حسن نصر اللہ کے خصوصی نمائندے: امت مسلمہ کے بڑے قیمتی اغراض و مقاصد ہیں۔ وہ مسلمانوں کی قدرت اور انکے اتحاد کو کمزور بنانا چاہتے ہیں۔ وہ دشمنان اسلام کے ساتھ مل کر مسلمانوں میں پیدا ہونے والی نیک تحریکوں پر خط بطلان کھینچنا چاہتے ہیں اور یہ عالم اسلام کے لئے ایک بہت بڑا خطرہ ہے۔
تہران کے موقت امام جمعہ نے کانفرنس کے حضار کرام کو مخاطب کر کے کہا: ہمیں تکفیریت کے خلاف ثقافتی کام بھی کرنا ہوں گے اور علمی کام بھی۔ صرف منطق اور دلیل کافی نہیں ہے اس لیے کہ ان کے سربراہان، عقل و منطق کو نہیں پہچانتے۔ منطقی بات ان کی کھوپڑیوں میں نہیں گھستی۔
مصری عالم دین نے کہا: ہم اس کانفرنس میں حاضر ہوکر اس بات کا اعلان کرتے ہیں کہ ہم اپنی پوری قوت و توانائی کے ساتھ تکفیریوں کا مقابلہ کریں گے اور جو لوگ "اللہ اکبر" کے نعرہ کے ساتھ اسلامی مقدسات کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں،ہم انکا ڈٹ کر مقابلہ کریں گے۔
عراق کے وزیر خارجہ: آج داعش نے عراق کے سنی نشین علاقوں میں ایسے جرائم کا ارتکاب کیا ہے کہ جن کی وجہ سے سنی مسلمان بھی ان سے متنفر ہو گئے ہیں داعش کے ہاتھوں قتل عام ہونے والے اکثر لوگوں کا تعلق اہل سنت سے ہے۔
نیویورک کے سنی امام جمعہ: ہمیں تکفیریوں کی ان بنیادی چیزوں پر گفتگو کرنے کی ضرورت ہے جن کو وہ دلیل بنا کر ظلم و ستم کی بساط پھیلا رہے ہیں تاکہ اس گروہ کے ساتھ مقابلہ کر سکیں۔
آذربائیجان کے مفتی اعظم نے کہا: دنیائے اسلام کو تکفیریوں سے عظیم خطرہ لاحق ہے چونکہ یہ تحریکیں اسلامی ممالک میں جنگ و جدال میں مصروف ہیں۔ آج داعش کے مقابلے میں ہم خاموش نہیں بیٹھ سکتے۔
آیت اللہ حسینی بوشہری نے کہا: تکفیری عنصر ایسا فتنہ ہے جس نے لوگوں کی پر سکون اور امن و چین کے ساتھ گزر رہی زندگی کو نشانہ بنایا ہے۔ تکفیریت سے بڑھ کر اس وقت کوئی مصیبت نہیں کہ جو اسلام کے چہرہ کو بگاڑ کر اسلام کے عقیدتمندوں کو اس سے دور دھکیل رہی ہے۔
کرمانشاہ کے سنی امام جمعہ نے کہا: داعش یقینا نابود ہو کر رہے گا چونکہ افراطی ٹولوں کی عمر بہت کم ہوتی ہے لیکن یہ فکر ختم ہونے والی نہیں ہے۔
افغانستان سے قاضی نذیر احمد حنفی نے کہا: اہل سنت اس بات پر عقیدہ رکھتے ہیں کہ کسی بھی قیمت پر دوسرے کو کافر ٹھہرانے کی اجازت نہیں دی جانی چاہئے۔ قرآن کریم کا پوری صراحت کے ساتھ اعلان ہے کہ مسلمانوں کا قتل گناہ کبیرہ ہے۔
یمن کے سنی مفتی نے بعض اسلامی ممالک کے ذریعہ تکفیری فتنہ کی ہونے والی امداد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ان ممالک کی ثروت خود انہیں کی عوام پر خرچ ہونی چاہئے نہ یہ کہ اپنے ملک کی ثروت سے تکفیریت کے لئے امداد فراھم کریں۔
شامی عالم دین نے کہا: تکفیری عناصر سامراج کے ہاتھوں کی کٹھپتلی بن کے رہ گئے ہیں تاکہ صہیونیت سکون سے رہ سکے اور مستقبل میں اسرائیل کی بقا کی خاطر اسلامی ممالک کو ٹکڑوں میں بانٹ دیا جائے۔
ترکی سے اوغلو نے بعض اسلامی ممالک میں جاری خانہ جنگی کے ہدف کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: اسلامی ممالک میں خانہ جنگی کی آگ بھڑکانے کا مقصد یہ ہے کہ ملک کے سیاسی اور جغرافیائی حدود کو تہہ و بالا کر دیا جائے۔
المصطفی یونیورسٹی کے چیئرمین نے کہا: تکفیریت ایک سخت ترین مشکل ہے جس سے آج مسلمان دست بگریباں ہیں۔ اسکے باعث مسلمان اپنی صلاحیت و توانائی کو بروئے کار نہیں لا پا رہے ہیں۔ہمیں اس مشکل کے حل کے طور پر صحیح اسلام کو پہچنوانے کی ضرورت ہے۔
ڈاکٹر ولایتی نے میں کہا: یہ کانفرنس بیدار مسلمانوں کے عام افکار کو نورانی کرنے میں اہم رول ادا کرے گی اور غیر مسلمان بھی یہ جان لیں کہ عالم اسلام کے برجستہ علماء کی نگاہ میں اس تکفیری ٹولے کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
عراقی سنی عالم دین نے کہا کہ تمام مسلمان، اصحاب و ازواج رسول کی توہین کی حرمت پر مبنی رہبر انقلاب اسلامی کے فتوے سے خوش ہوئے باقی علماء کو بھی اپنی ذمہ داریوں پر عمل کرنا چاہیے۔
اسلام آباد کے مفتی اور پاکستان کے جامعہ النعیمہ کے سرپرست نے کہا ہے کہ اقوام عالم کو، قتل و تشدد اور انسانوں کا بےدردی سے قتل عام کئےجانے کا مقابلہ کرنے کے لئے، تکفیری دہشت گردوں کے سامنے ڈٹ جانا چاہئے۔
حجۃ الاسلام ڈاکٹر لک زائی نے کہا: تکفیری ٹولیوں کے جرائم روکنے کا بہترین طریقہ ثقافتی فعالیتیں ہے جن کی انجام دہی علماء کی ذمہ داری ہے۔
اجلاس کے اختتامیہ کے موقع پر، عالم اسلام کے علمائے دین کا مشترک بیان:
تکفیری نظریات کی بنا پر انجام پانے والے تمام اعمال جیسے:خود کش حملے، بم بلاسٹ،قاتلانہ حملہ،قتل،اہل قبلہ کو ہر قسم کی تکلیف پہونچانا،انکی ناموس اور انکے اموال کو مباح سمجھنا، انہیں مالی نقصان پہونچانا،اسلامی مقامات مقدسہ کو نقصان پہونچانا یا انہیں منہدم کرنا یہ سب شرعی طور پر حرام ہیں۔
والسلام علی من اتبع الہدی