اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطَان الرَّجِیْم
بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
عید غدیر کا دن و ہ دن ہے جب مرسل اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکومت کی ذمہ دار ی معین و مشخص فرمائی ہے۔ اور آخر تک کے لئے اسلامی حکومت کا نمونہ پیش کردیا ہے ۔ حکومت اسلامی کے لئے مثال و نمونہ ایک ایسی شخصیت ہے جو ہر جہت سے مہذب اور تمام پہلوؤں سے معجزہ ہے۔ البتہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس بات کو جانتے تھے کہ تمام معنی میں کوئی بھی حضرت امیر سلام اللہ علیہ کا مثل نہیں ہو سکتا؛ لیکن نمونہ ، کہ اس طرح کا یا اس سے ملتا جلتا ہونا چاہئے، آخر تک کے لئے معین فرما دیا ۔ چنانچہ حضرت امیر ؑ نے خود بھی اپنے حکومتی اصول و قوامی، مالک اشتر ؓ کے نام اپنے عہد نامے میں بیان فرما دئیے ہیں کہ حکومت اور وہ افراد جو آپ کی طرح اسلامی ملکوں پر حکومت کر رہے ہیں ، ان کی ذمہ داریاں تمام پہلوؤں میں کیا ہیں ۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معین کردہ نمونہ خلافت اور حضرت امیر علیہ السلام کے بیان کردہ اصول و ضوابط ، جو انہوں نے ولایت اور ولایت کے حاصل افراد کے لئے مقرر فرمائے ہیں ، یہ تمام حکومتیں جو اس وقت سے اب تک بر سر کار آئی ہیں ، حضرت امیر ؑ اور حضرت امام حسن ؑ کی چند روزہ حکومت کے علاوہ تمام حکومتیں ، چاہے وہ حکومتیں ہوں جو کسی حد تک ، مثلا اگر اس طرح کی ملتی جلتی صورت حال کہیں نظر آجائے، کہ کسی بھی حد تک حکومتی آداب و اصول کے تئیں مؤدب رہے ہوں اور رسول اللہ ؐ کے نمونہ حکومت سے موافقت کرتے ہوں اور چاہے وہ حکومتیں جو بالکل ویسی نہیں رہی ہیں ۔ ان حکومتوں میں کوئی ایک بھی حکومت کی لیاقت و صلاحیت نہیں رکھتی تھیں ۔ چنانچہ خود حضرت امیر علیہ السلام نے معاویہ کی حکومت کے خلاف قیام کیا۔ جبکہ معاویہ بھی بظاہر اسلام کا پیرو تھا اور اسلامی امور انجام دیتا تھا اور شاید اسلامی اعتقاد بھی رکھتا تھا ! شاید نہ بھی رکھتا ہو، اس کے باوجود حتی وہ لوگ بھی جو اپنے خیال کے مطابق حضرت امیر ؑ کو نصیحت کیا کرتے تھے کہ آپ کچھ دنوں کے لئے معاویہ کو چھوڑ دیجئے وہ شامات پر حکومت کرے اور جب آپ کی حکومت کے پائے مستحکم ہو جائیں اس وقت اس کو ہٹا دیجئے گا۔ حضرت ؑ نے ان میں سے کسی ایک کی پرواہ نہیں کی اور ان کے لئے حجت بھی یہ تھی کہ اگر ایک شخص بھی الٰہی قوانین کے خلاف عمل کر رہا ہے اور شہروں میں ظلم وستم کو رواج دے رہا ہے ، میں حتی ایک لمحے کے لئے بھی برداشت نہیں کر سکتا کہ اس کو وہاں کا حاکم قرار دے دوں ۔
اب اگر اس کو حاکم قرار دے دیتے تو یہ حجت بن جاتی اس بات پر نہیں ایک فاسق کو بھی ولی امر کی طرف سے حاکم قرار دیا جاسکتا ہے ؛ لیکن حضرت امیر علیہ السلام نے اس میں مضائقہ محسوس کیا حتی اگر مصلحت وقت کا تقاضا بھی مان لیں کہ آپ کی حکومت کے ستوں محکم و استوار ہوجاتے ، ممکن تھا کہ معاویہ کو آسانی سے بر طرف کر دیتے پھر بھی انہوں نے اپنے آپ کو اجازت نہیں دی کہ معاویہ کو حتی ایک روز کے لئے بھی حکومت پر باقی رہنے دیں اور یہ ہم لوگوں کے لئے حجت ہے کہ اگر ہم سے ممکن ہے تو یہ حکومتیں ، جو حکومت جور ہیں ان کو ختم کر دیں ، چنانچہ اگر خدا نخواستہ ایسا نہ کر سکیں ان حکومتوں کے سلسلے میں راضی رہنا چاہئے ایک ہی دن کے لئے اور ایک ہی گھنٹے کے لئے ہی کیوں نہ ہو، ظلم پر راضی رہنا ہے، تعدی پر راضی رہنا ہے، لوگوں کے اموال کی غارتگری پر راضی رہنا ہے اور کسی مسلمان کو حق نہیں ہے کہ وہ اپنی رضا کا اظہار کرے ایک لمحے کے لئے ایک ظالم کی حکومت پر راضی رہے اور ہم سب کا شرعی فریضہ ہے کہ یہ حکومتیں جو اقتدار میں آتی رہی ہیں اور الٰہی آئین اور قانونی ضابطوں کے خلاف آئی ہیں حتی خود ان کے قوانین کے خلاف آئی ہیں ہم سب کا فریضہ ہے کہ ان کے خلاف جنگ کریں ہر شخص جس مقدار میں بھی ہو سکتا ہے ان کی مخالفت اور ان سے جنگ کرے اور آج کوئی بھی عذر قابل قبول نہیں ہے۔
(صحیفہ امام، ج5 ، ص 28)