ایک الٰہی فطرت جو تمام انسانوں کے اندر پائی جاتی ہے وہ راحت اور چین وسکون سے عشق ہے ۔۔۔ تمام عالم وملک اور پوری دنیا میں راحت کا مطلق وجود ہی نہیں ہے پس ضروری ہے کہ دار تحقق اور عالم وجود میں ایک ایسا عالم ہو جس کی راحت، رنج وتعب وغیرہ سے مخلوط اور آلودہ نہ ہو اور وہ نعیم حق اور عالم کرامت ذات مقدس ہے۔( شرح چہل حدیث، ص ۱۸۶)
امام خمینی(ره) نے یہاں پر بھی قیامت کو ثابت کرنے کیلئے برہان تضائف کاسہارا لیا ہے۔ بنا بر ایں امام خمینی(ره) کے نظریئے کی بنیاد پر اگر ہم احکام فطرت کو احکام عقل عملی جانیں تو ہم ان احکام ’’ ہم کمال مطلق کے طالب ہیں ‘‘ یا ’’ ہم راحت مطلق کے طالب ہیں ‘‘ سے ان کے متعلقات جو خد ا اور قیامت ہیں ان کو ثابت کر سکتے ہیں نتیجہ یہ ہوگا کہ امام خمینی(ره) کے نظریئے کی بنیاد پر ان احکام سے جو اخلاقی احکام ہیں ہم خد ا، قیامت اور د ین کے دوسرے مسائل کاا ثبات کر سکتے ہیں پس امام خمینی(ره) کے نظریئے کے مطابق اخلاق، دین کیلئے رہنما بن سکتا ہے اور ایسے اخلاقی احکام بھی د ین سے وابستہ نہیں ہیں ۔ بنابر ایں اخلاق، دین سے مستقل ہے اور اخلاق کا انجام د ین ہی ہوتا ہے۔
یہ نظریہ کانٹ کے نظریئے سے ملتا جلتا ہے البتہ اس نکتہ پر توجہ دینی چاہئے کہ امام خمینی (ره) قائل ہیں کہ ہم عقل نظری کے ذریعے طبیعت کے ماوراء مسائل منجملہ خد ا اور انسانی نفس کو ثابت کر سکتے ہیں جب کہ کانٹ کا عقیدہ ایسا نہ تھا۔ اسی طرح کانٹ کے برخلاف امام خمینی(ره) کا عقیدہ یہ نہیں ہے کہ تمام اخلاقی امور کو دین سے مستقل طور پر درک کیا جاسکتا ہے ۔ بنا بر ایں اس جہت سے کہ امام خمینی(ره) د ین اور شریعت کو انسان کی سعادت کیلئے ضروری جانتے ہیں ۔ آپ کی نظر میں خد ا نے جو کچھ د ین کے بارے میں امر فرمایا ہے وہ خیر ہے اور جس چیز سے روکا ہے وہ برائی اور شر ہے ۔ بنا بر ایں اچھائی اور برائی خد ا کے ارادہ وفرامین کی طرف لوٹتی ہے۔ آپ ایک مقام پر فرماتے ہیں :
مجاہد کیلئے مشارطہ ومراقبہ اور محاسبہ ضروری ہیں ، مشارطہ یہ ہے کہ مثلاً دن کے شروع میں اپنے نفس کے ساتھ شرط لگائے کہ آج مرضی ٔ الٰہی کے خلاف کوئی کام نہیں کرے گا ۔۔۔ اس مشارطے کے بعد مراقبہ کے مرحلے میں داخل ہوگا اور وہ یہ ہے کہ شرط کی پوری مدت میں اس پر عمل کی طرف متوجہ رہے اور اپنے لئے اس پر عمل کرنے کو ضروری سمجھے اور اگر خد ا نخواستہ تمہارے دل میں یہ خیال آگیا کہ ایسا کام کرو جو مرضی ٔ الٰہی کے خلاف ہے تو یہ سمجھ لینا کہ یہ شیطان کی جانب سے ہے اور شیطانی جنود یہ چاہتے ہیں کہ تم نے جو شرط رکھی ہے اس سے تم کو روک دیں ۔۔۔ پھر رات تک تمہارا اسی حالت میں باقی رہنا، رات میں محاسبہ کا وقت آئے گا اس سے مراد یہ ہے کہ تم اپنے نفس کا حساب کرو کہ اپنے خد اسے جو شرط کی ہے کیا تم نے اس پر عمل کیا ہے، کیا اس معاملے میں تم نے اپنے ولی نعمت کے ساتھ ذرا بھی خیانت نہیں کی ہے؟( شرح چہل حدیث، ص ۹)
آپ ایک دوسرے مقام پر فرماتے ہیں :
۔۔۔ خد ا وند عالم نے انبیاء ومرسلین (ع)کو بھیجا اور اس نے کتابیں نازل کیں اور ہمیں سعادت وشقاوت اور جنت وجہنم کے راستے دکھائے اور دنیا وآخرت میں ہمیں جس چیز کی ضرورت تھی اس نے ہمیں عنایت کیں ۔( شرح چہل حدیث، ص ۱۱ )
امام خمینی(ره) کے ان بیانات سے بخوبی یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کتب الٰہی میں خد ا کے جو فرامین ہیں ان کی اطاعت ضروری ہے پس جو کچھ خد ا نے حکم دیا ہے وہ نیک ہے اور جس سے روکا ہے وہ برا ہے۔ بنا بر ایں امام خمینی(ره) کے اس عقیدے کی بنیاد پر کہ تمام اچھائیوں اور برائیوں کا معیار خد ا کے فرامین ونواہی ہیں آپ کو نظریہ فرمان الٰہی کے طرفداروں میں شمار کیا جاسکتا ہے البتہ اس جہت سے کہ امام خمینی(ره) کا عقیدہ یہ ہے کہ ہم فرمان الٰہی سے الگ مستقل طور پر کچھ اخلاقی احکام پر عقیدہ رکھ سکتے ہیں ۔