اللہ تعالی کی محبت و دوستی کی دو شرط ہیں: اللہ کے بندوں کو معاف کرنا اور خدمت خلق ہے۔
اگرچہ معاشرے کو ’’ اعلی اور معیاری اخلاقی ‘‘ شارع سے گزارانے کےلئے اور ’’ اخلاقی و مثالی معاشرے ‘‘ تک پہنچنے کےلئے کوئی قطعی اور دائمی راہ حل پیش نہیں کرسکتے؛ لیکن قابل عمل اور قابل دسترس راہ کار اور لائحہ عمل کے بارے میں سوچا جاسکتا۔
الف: اخلاق اولین اور سب سے زیادہ ذاتی اور شخصی امر ہے جو انسان کے اندر رونما ہوتا ہے۔ معاشرے کے تمام افراد کو ’’ اخلاقی زندگی ‘‘ تک پہنچنے کےلئے کوشش کرنی چاہیئے۔ اخلاق سازی اور خود سازی بیرونی وعظ و نصیحتوں سے نہیں بلکہ اندرونی جہاد ہی سے وجود میں آتی ہے۔ لٰہذا ہم سب کو فضیلت کی طرف رُخ اور آگے بڑھنا چاہیئے تاکہ ہمارا کل، آج سے بہتر ہو۔
ب: ’’ اخلاقی زندگی ‘‘ کو ہمارے معاشرے کا اہم اور اساسی مطالبہ میں تبدیل ہونا چاہیئے؛ اس مقصد و منزل کےلئے معاشرے کا ’’ اخلاقی خود آگاہی ‘‘ تک رسائی ضروری ہے۔ اخلاق کی ضرورت اور اہمیت کو درک کرنا اور اخلاق کو راز کمال اور رضائے الٰہی جاننا ناگزیر ہے۔ اس منزل تک پہنچنے کےلئے اخلاقی مسائل اور مباحث کو مختلف سماجی گروہوں منجملہ کالج اور یونیورسٹیوں کے طالبعلم، اساتید اور ۔۔۔ کی گفتگووں کا بنیادی اور روز مرہ موضوع قرار پانا چاہیئے۔
ج: عوام کی خدمت ’’ اخلاقی زندگی‘‘ تک پہنچنے کےلئے قطعی راہ حل پیش کرنا ہے؛ جب انسان اپنے کام کی اساس کو عوام کی خدمت قرار دیتا ہے اپنی فکر اور عمل کو برے اخلاق سے آلودہ نہیں کرتا کیوںکہ گندے اخلاق کے ساتھ عوام کی خدمت نہیں کی جاسکتی۔
دوسری جانب، اللہ تعالی کی محبت و دوستی کی بھی دو شرط ہیں: ایک، اللہ کے بندوں کو معاف کرنا اور دوسری شرط، خدمت خلق ہے۔ اللہ کی دوستی ایک طرف ہے اور بد اخلاقی دوسری سمت۔ برے اخلاق کے حامل انسان ہرگز اللہ کی محبت کا سایہ اپنے سر پر نہیں دیکھےگا۔
د: بعض کا باور ہےکہ ہمارے سماج کا درد اور مشکل ’’ ڈر ‘‘ ہے لیکن راقم کا عقیدہ ہے، ہمارے معاشرے کا سب سے بڑا اور اساسی درد ’’ نہ ڈرنا ‘‘ ہے اور اے کاش ہماری سماج کا درد ’’ ڈر ‘‘ ہوتا! ہمارے معاشرے میں رائج بہت سے برے اخلاقیات کی دلیل ’’ اللہ سے نہ ڈرنا ‘‘ ہے اور اس کی ذات مقدس کو بھولا دینا ہے؛ اچھی طرح نظر دوڑائیں، آپ ’’ اللہ سے نہ ڈرنے ‘‘ کو معاشرے کی تمام اخلاقی مشکلات کا راز پائیں گے۔
ھ: اعمال و افعال کے پیچھے موجود نیت اور رجحان اہم اور بنیادی مسائل میں سے ہے؛ حقیقت یہ ہےکہ اگر نیتیں پاک اور سب کچھ اللہ تعالٰی کےلئے ہو، اخلاق کو معاشرے میں مقام و جگہ ملے گی؛ اس کے معنی یہ ہیں کہ تمام برائیوں اور خبائث کی جڑ بھی، بری اور ناپاک نیتیں ہیں۔
و: اخلاقی تربیت کے مختلف ذرائع ہیں، چنانچہ اس زمینے میں ہنر کو بہترین ذرائع میں سے قرار دیا جاسکتا۔ اس توصیف سے یہ بات واضح ہوتی ہےکہ اخلاقی معاشرے میں ہنر کا مقام صرف تبلیغی اور نعرے کی حد تک نہیں، کیوںکہ ہنر، خیال کے عنصر کو جو انسان میں اخلاقی روح کی بقا کا ضامن ہے، وہم کی جگہ عطا کرتا ہے اور اس حوالے سے ہنر کی طرف توجہ کرنا، معاشرے کےلئے سعادت و خوشبختی کو ہدیہ کرتا ہے۔
ز: اختلاف کے وقت ادب کا پاس رکھنا، ایک عظیم ہنر ہے اور بے ادبی کا ثمرہ سوائے کینہ اور دشمنیوں کو شدت دینے اور معاشرے کی تمام جڑیں سوکھ جانے کے علاوہ کچھ اور نہیں۔
(انقلاب اخلاقی راہی بہ رہایی؛اصغر زارع کہنمویی ص۱۷)
جاری ہے