حضرت آیت اللہ نجابت جو خدا کے عشق میں فانی اور سوختہ تھے، ہر جگہ اپنے معشوق کی بو محسوس کرتے تھے اور اس کے دلدادہ تھے اور اپنی جان دینے کے لئے تیار تھے۔ اس کے علاوہ آیت اللہ نجابت ایک دوسرے قانون کی روشنی میں اہل عرفان اور سلوک کے لئے امام خمینی (رح) کا اتباع ضروری جانتے تھے۔
"کوئی اس وقت تک کامل عرفان تک نہیں پہونچ سکتا جب تک حقوق کی رعایت نہ کرے، منجملہ مسلمانوں کے رہبروں کا حق ہے، اس شخص کا جس نے اسلام کا پرچم بلند کیا اور تحریک چلائی ہے، اس کا حق ادا ہونا چاہیئے۔"
ہم یہاں پر آیت اللہ نجابت کے بیانات کو ذکر کرنا مناسب سمجھتے ہیں کہ انہوں نے امام خمینی (رح) کی رحلت کے بعد بیان فرمایا ہے اور وہی عبارت ذکر کررہاہوں تا کہ معلوم ہو کہ حضرت استاد نے حضرت امام خمینی (رح) کی اس درجہ کیوں حمایت کی ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حضرت آیت اللہ العظمی خمینی (رح) کو خداوند عالم نے بہت ساری فضیلتیں دی تھیں۔ آپ کی خدا شناسی کی داستان اس سلسلہ میں آپ اپنے تمام ہم عصروں پر فوقیت رکھتے تھے۔ یعنی آپ کے ہم عصر مجتہدین میں اس درجہ خداشناسی کے آثار دکھائی نہیں دیتے تھے۔ اعلان میں آپ کے کلمات سے واضح ہوتا تھا کہ آپ ہمیشہ اپنے منعم کی طرف متوجہ تھے۔ سن 41 ش کے بعد آپ کا جو اعلان بھی دیکھا گیا منعم کی یاد دہانی تھی۔ اگر آپ معرفت میں ڈوبے ہوئے نہ ہوتے اور اپنے خدا کو منعم نہ پہچان ہوتا تو آپ اپنے تمام بیانات اور تقریروں میں خلق کو خدا کی طرف توجہ نہیں دلاتے۔ یہ سب واضح ہے کہ اگر آپ کی معرفت سطحی ہوتی تو رائمی یاد دہانی کی قدرت نہ ہوتی کیونکہ دائمی یاد دہانی اس شخص میں منحصر ہے جو خدا کو پہچانتا ہے اور آپ سے یاد دہانیاں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ اور اسنان کو اطمینان حاصل ہوتا ہے۔ آپ کے یہاں خدا کی معرفت میں کوئی نقص نہیں تھا اور جس حد تک انسان خدا کی معرفت میں قدم اٹھا سکتا ہی آپ نے اٹھایا تھا۔
اس پر بہترین گواہ یہ ہے کہ آپ نے خدا کو پہچانا تھا اور آپ کسی بھی سبب یا غیر پر تکیہ نہیں کرتے تھے۔ آپ نے اپنی تحریک کا آغاز سے اپنی رحلت تک مسبب پر نظر نہیں رکھتے تھے۔ اگر یہ بزرگوار تمام موجودات خصوصا انسان کو خدا کا خلیفہ جانتے تھے، تاج کرامت بنی آدم کا حق جانتے تھے۔ آیہ "لقد کرمنا بنی آدم" کو تمام موجودات سے متعلق جانتے تھے کیونکہ ساری موجودات عزیز ہیں لیکن کوئی بھی موجود، موجود پر تکیہ نہیں کرتے تھے۔ کبھی دیکھنے کو نہیں ملا کہ آپ نے کسی خاص موجود پر تکیہ کیا ہو۔ آپ کی نظر موجود حقیقی پر تھی اور موجود عرضی کو فانی جانتے تھے۔ اگر آپ ملکوت شخص کو خدا سے متصل جانتے تھے لیکن کوئی فرد آپ کے لئے اہمیت نہیں رکھتی تھی۔ خلاصہ آپ کے انداز و اطوار سے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ آپ کی توجہ منعم حقیقی پر تھی۔
تیسری بات یہ ہے کہ خود اس ناچیز نے آپ کی دو کرامت دیکھی ہے: ایک بار نجف اشرف میں اور ایک بار کربلائے معلی میں اور یہ کرامت عام انسان کے بس کی بات نہیں ہے بلکہ ان لوگوں میں منحصر ہےجن کا سارا ہم و غم ماوراء الطبیعة ہو ورنہ جس کی توجہ طبیعت کی طرف ہو اس سے یہ کرامت ظاہر نہیں ہوسکتی۔
ملاحظہ ہو کہ آیت اللہ نجابت ایک عارف و اصل کے عنوان سے امام خمینی (رح) کی تحریک کی کونسی برکت کو سب سے اہم اور با برکت جانتے تھے۔ اگر خدا ہر موجود سے بلند و بالا ہے پس خداکی محبت اور اس کی معرفت ہر نعمت اور برکت سے بالاتر ہے۔ خود حضرت امام نے فرمایا ہے:
"ہم دیکھ رہے ہیں کہ ملت الہی ہوچکی ہے.... انسان کے اندر جو انقلاب پیدا ہوتا ہے وہ ملک کے اندر انقلاب سے بالاتر ہے"