دس اسفند سن ۱۳۵۷ اسلامی انقلاب کی تاریخ کا ایک اہم دن ہے۔ بانی انقلاب اسلامی ایران واپس آنے کے ۲۸ دنوں بعد قم کے لئے روانہ ہوگئے۔اس واقعے کی تصاویر موجود ہیں کہ قم کے عوام نے امام خمینی کا قم میں کتنا شاندار استقبال کیا۔ تقریبا ایک میلین افراد امام کے قم میں داخلے کے راستے پر انکا استقبال کرنے کے لئے موجود تھے۔ امام خمینی رح نے جس طرح اسلامی انقلاب کی رہنمائی اور اسے کامیاب بنانے میں اہم اور مرکزی کردار ادا کیا انکے سفر قم سے متعلق مختلف حکایتیں اور تجزئیات و تحلیلیں موجود ہیں۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ امام خمینی رح رہبر انقلاب کے عنوان کے ساتھ ہی کیوں قم تشریف لے گئے حالانکہ ابھی انقلاب برپا بھی نہیں ہوا تھا؟
اس سوال کا چند مختلف زاویوں سے جواب دیا جا سکتا ہے۔ اول یہ کہ خود امام خمینی رح کی نگاہ میں، دوم امام خمینی رح کے قریبی افراد اور تیسرے نمبر پر ناقدین کی نگاہ میں اور شاید یہ کہا جا سکتا ہے امام خمینی رح کی رہبری کے دوست نما مخالفین کی نگاہ میں پہلوی حکومت کے اندر اختلافات بادشاہی نظام کے آکری ایام سے ہی شروع ہوچکے تھے۔ مختلف قومی، مذہبی جماعتوں، مجاہدین خلق اور بائیں بازو کی سیاسی جماعتوں میں سے ہر ایک یہ چاہتا تھا کہ پہلوی حکومت کے خاتمے کے بعد ملک میں اس کی قدرت اور طاقت دوسرے گروہں سے زیادہ ہو۔ لیکن اس انقلاب کی رہبری امام خمینی رح کے ہاتھوں میں تھی اور امام خمینی رح کے نزدیک آئے بغیر انقلاب کی صورت میں وجود میں آنے والے نظام میں موجودگی ممکن نہیں تھی۔ اسی وجہ سے انقلابی سیاسی جماعتوں میں سے اکثر نے انقلاب کی کامیابی سے قبل ہی اس بات کی کوشش کی وہ امام خمینی رح کے نزدیک آجائیں۔ نوفل لوشاتو میں آمد و رفت کا جو سلسلہ جاری تھا وہ اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
امام خمینی رح ان شرائط میں وطن واپس آئے اور پھر ۲۸ دنوں بعد قم تشریف لے گئے۔ اس سفر کی مختلف انداز سے تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔ اس سفر کی ایک رپورٹ میں تو امام خمینی رح کی قم آمد کو عادی اور پیشن گوئی شدہ قرار دیا گیا ہے اور اس کے ثبوت کے طور پر امام خمینی رح کی تقریر کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ امام خمینی رح نے فرمایا تھا کہ" میں نے اس سے قبل بھی کہا تھا کہ قم سے علم نشر ہوتا ہے، قم سے قدرت و طاقت نشر ہوتی ہے۔ قم نمونہ عمل ہے اور مجھے اس بات پر فخر ہے کہ میں قم میں ہوں۔ میں تقریبا پندرہ سال یا اس سے کچھ زیادہ عرصے کے لئے آپ سے دور تھا لیکن میرا دل آپ کے ہمراہ تھا"۔ امام خمینی رح نے اپنی ایک اور تقریر میں کہ جو آپ نے تہران کے علوی اسکول میں کی تھی، قم جانے کی خوشخبری سنائی تھی:" میں انشاء اللہ چند دنوں بعد قم آُ کے پاس آئوں گا۔ مجھے امید ہے کہ ہم ایک ہی صف میں کھڑے ہوں گے، اور مل کر آگے قدم بڑھائیں گے اور انشاء اللہ اس شرعی مقصد کو آگے لے کر چلیں گے۔"
بعض افراد امام رح کے قم کے سفر کو انکی سیاسی سے کنارہ کشی سے تعبیر کرتے ہیں جس کے جواب میں سرگرم انقلابی شخصیت اور امام خمینی رح کے نزدیکی ساتھی ڈاکٹر صادق طباطبائی کہتے ہیں کہ:" بعض افراد امام خمینی رح کے سفر قم کے لئے نازیبا کلمات ادا کرتے ہیں اور اس سلسلے میں غلط تجزیئات کرتے پھرتے ہیں، من جملہ یہ کہتے ہیں کہ چونکہ حکومت یہ چاہتی تھی کہ امام لوگوں کی دسترس میں نہ ہوں اس لئے انہیں قم بھیج دیا گیا تاکہ تہران میں آزادی کے ساتھ حکومت کر سکے۔ یہ باتیں خلاف واقعہ ہیں۔ امام خمینی رح کہ اہم سرگرمیوں میں سے ایک یہ تھی علماء کرام ان سے ملاقات کے لئے جاتے تھے اور جب ان ملاقاتوں کا احوال مختلف نشستوں اور محفلوں میں بیان کیا جاتا تھا تو معاشرے پر اس کے نہایت مثبت اثرات مرتب ہوتے تھے۔
قم میں قیام کے بعد امام خمینی رح نے اپنی تقریر مین فرمایا:" مجھے بہت خوشی ہے کہ اتنے طویل عرصے کے بعد میں آپ دوستوں اور نوجوانوں کے درمیان ہوں۔ میں ہمیشہ اپنے وطن قم اور ایران کے لئے فکر مند تھا، ہوں اور رہوں گا۔ آپ تو جانتے ہیں کہ قم حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے زمانے ہی سے تشیع کا مرکز رہا ہے۔ تقریبا اسی زمانے میں تشیع کا مرکز تھا اور قم سے ہی تشیع پوری دنیا میں پھیلی۔ علم بھی قم سے ہی دیگر جگہوں تک پہنچا اور الحمد اللہ اسلام کی راہ میں مشقتیں اور فداکاری کی رسم بھی قم سے ہی چلی۔ قم تمام برکتوں کا مرکز ہے۔ خدا آپ کی، قمیوں کی ہماری خاطر حفاظت کرے۔
یہ باتیں نشان دہندہ ہیں کہ امام خمینی رح پہلے سے ہی یہ ارادہ رکھتے تھے کہ ایران واپس آنے کے بعد قم میں سکونت اختیار کریں گے۔ ایک مذہبی شہر کے عنوان سے اور انقلاب کی رہنمائی کے لئے امام خمینی رح کے فیصلوں کے لئے ایک مرکز کے عنوان سے قم کا کردار بہت اہم اور موثر رہا۔ اس لئے امام خمینی رح کے قم میں قیام کو غیر موثر قرار نہیں دیا جاسکتا ۔
اس سلسلے میں مرحوم آیت اللہ ہاشمی رفسنجانی نے اپنی بایوگرافی میں لکھا ہے کہ امام خمینی رح نے قم جانے کا فیصلہ کیا۔ نہایت تیزی سے اس بات پر عملدرآمد کیا کہ اسلامی نظام کے ذیلی شعبہ جات کو جلد از جلد قانونی شکل دے دی جائے۔ البتہ اس زمانے میں یہ معمول نہیں تھا کہ انقلاب لانے والے عناصر اس طرح کے اقدامات انجام دیں اور نئے آنے والے انقلابات کو منظم ہونے اور نئے نظام کا تنظیم سازی میں دس پندرہ سال لگ جاتے تھے۔ لیکن چونکہ امام جلد از جلد قم جانا چاہتے تھے اور ہم لوگ بھی امام خمینی رح کے نظریات سے باخبر ہونے کی بنا پر یہ بات جانتے تھے کہ تہران میں انکا قیام عارضی ہے۔ لہذا ہم اس بات پر متفق تھے کہ امام خمینی رح قم تشریف لے جائیں اور چونکہ قم میں بھی امام خمینی رح ہماری دسترس میں تھے اس لئے ہمیں کسی قسم کی کوئی پریشانی نہیں تھی۔ لیکن امام خمینی رح کے قم تشریف لے جانے کے بعد احساس ہوا کہ آپ کا تہران میں موجود ہونا کتنا اہم ہے۔
امام خمینی رح اور انقلاب سے تعلق رکھنے والی بعض اہم شخصیات کی یادداشتوں کا جائزہ لینے کے بعد اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ امام خمینی رح قم میں اپنے ذاتی لگائو کی بنا پر مقیم نہیں ہوئے تھے بلکہ دوسرے مسائل کا بھی اس سے گہرا تعلق تھا۔ نجف میں قیام کے دوران اسلامی حکومت کے موضوع پر دروس اور نوفل لوشاتو میں دیئے گئے انٹرویو کہ جس میں بادشاہی نظام کے غیر شرعی ہونے اور اسلامی جمہوریہ کے قیام کی تاکید کی گئی اس بات کی غماز ہیں امام خمینی رح نے خاص اور واضح اہداف کے تحت شاہی حکومت کے خلاف تحریک کی سربراہی کو قبول کیا تھا۔ پہلوی حکومت کے خاتمے کے بعد بعض افراد یہ چاہتے تھے کہ ملک میں اسلامی یا اسلامک ڈیموکریٹک ری پبلک کے بجائے صرف ری پبلک یا ڈیموکریٹک ریپبلک کے عنوان سے حکومت بنائی جائے۔ لیکن امام خمینی رح نے اسلامی جمہوریہ پر بہت زیادہ تاکید کی۔ اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد پیش آنے والی تبدیلیوں اور مختلف تحریکوں اور گروہوں کے وجود میں آنے جیسے مسائل نے ملکی فیصلوں میں امام خمینی رح کی بنفس نفیس موجودگی کی اہمیت پر سے پردہ اٹھا دیا۔
قم میں گیارہ مہینوں کے قیام کے دوران امام خمینی رح کے اہم کاموں میں سے ایک ریفرنڈم کے زریعے اسلامی جمہوریہ کے قیام کا حکم تھا کہ جو ۱۲ فروردین ۱۳۵۸ کو ہوا۔ اس کے علاوہ مجلس شورائے اسلامی اور آئین کی منظوری، ایڈ کمیٹی جسے ایران میں کمیتہ امداد امام خمینی رح کہا جاتا ہے، امام خمینی رح کا ۱۰۰ نامی بینک اکاونٹ، جہاد عمرانیات، مصر سے تعلقات کا خاتمہ، امریکی جاسوسی کے اڈے پر قبضے کے عمل کی حمایت وغیرہ شامل تھے اسی طرح امام خمینی رح نے اس زمانے میں بڑی تعداد میں مذہبی، فلاحی، رفاحی ۔۔۔۔۔۔ ادارے بھی تشکیل دیئے۔
سن ۱۳۱۲ سے لے کر امام خمینی رح کی وفات تک دیئے گئے تما تر پیغامات، انٹرویوز، خطوط، شرعی اجازہ، بیانات اور تقریروں کو جمع کیا گیا ہے اور بائیس جلدوں پر مشتمل کتاب نشر کی گئی ہے جسے صحیفہ امام خمینی رح کہا جاتا ہے۔ ان بائیس جلدوں میں سے تقریبا سات جلدوں کو صرف امام خمینی رح کے قم میں قیام سے مختص کیا گیا ۔ جسے چھٹی جلد کے صفحہ نمبر ۲۶۹ سے لے کر بارہویں جلد کے ۱۲۴ویں صفحے تک مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔ یہ حجم اس بات کی نشاندہی کرتا ہے ہے کہ امام خمینی رح نے اس زمانے میں کتنی زیادہ ملاقاتیں کیں اور کتنے زیادہ احکامات اور بیانات صادر کئے اور کتنی زیادہ تقریریں کی ہیں۔