اخلاق

امام خمینی(ره) کی نظر میں اخلاق کے جاودانی اصول

آیات وروایات سے اخلاق کے ا طلا ق وجاوید ہونے کا پتہ چلتا ہے

یونان کے نامور فلسفی افلاطون کا نظریہ ہےکہ اخلاقی خیر ایک عینی اور ہمارے ذہن سے مستقل ایک حقیقت ہے جس طرح ریاضی وطبیعی واقعیت ہمارے ذہن سے قطع نظر وجود رکھتی ہے اسی طرح  اخلاقی خیر بھی وجود رکھتا ہے اور ایک خارجی واقعیت کے ساتھ ہمارے ذہن کے رابطہ کا محصول ونتیجہ ہے یہ فی نفسہ وجود رکھتی ہے اور مطلق ہے۔

خیر تمام لوگوں  کیلئے برابر اور ایک ہی ہوتا ہے چاہے وہ عورت ہو یا مرد، بوڑھا ہو یا جوان، عالم ہو یا جاہل اور ایک شخص ہو یا پورا معاشرہ سب کیلئے یکساں  ہوتا ہے۔ بنا بر ایں  اخلاق تمام لوگوں  کیلئے ایک ہی ہوتا ہے اور ایک ہی فارمولہ رکھتا ہے۔( تعلیم وتربیت در اسلا م،ص ۱۸۴)

ایمانوئل کانٹ جو ایک جرمنی فلسفی ہے جس کا فلسفہ اسی کے زمانہ میں  پورے جرمن اور تمام ملکوں  میں  پھیل گیا وہ فلسفۂ اخلاق میں  مطلق کا قائل ہے وہ دوسروں  سے بہتر اور صریح تر کہتا ہے کہ اخلاق مطلق ہے کسی وقت تبدیل نہیں  ہوتا اور اس میں  کچھ استثناء نہیں  ہے۔ 

اس کے عقیدہ کے مطابق اخلاق ان صریح وقاطع دستورات کا نام ہے جس کے بارے میں  انسان کا وجدان اس کو الہام کرتا ہے اور اخلاقی فعل وہ فعل ہے جو مطلق ہوتا ہے اور انسان اس کو صرف اس لئے انجام دیتا ہے کہ اس کا اخلاقی وجدان اس پر فریضہ عائد کرتا ہے۔ اخلاقی فعل ہر قید وشرط سے آزاد ہے اور اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ذمہ داری ادا ہو۔

کانٹ کی نظر میں  اخلاق وہی وجدانی الہامات ہیں  جو کلی ودائم اور ہر وقت کیلئے ہیں  وہ اخلاق کو نسبی نہیں  بلکہ مطلق جانتا ہے۔ کانٹ کا اس بات پر بہت زور ہے کہ اخلاقی قواعد کلی اور مطلق ہوتے ہیں  اور کسی وقت بھی نہیں  بدلتے اور ان میں  کوئی چیز استثنا بھی نہیں  ہے۔ (سیر حکمت در اروپا، ج ۲، ص ۱۹۲۔ ۲۰۷)

مکتب اسلا م میں  کچھ ایسے اصول، ارکان اور قواعد موجود ہیں  جو اسی مکتب کے خصوصیات میں  سے ہیں  کہ جس میں  تفکیک وجدائی نا ممکن ہے ہر مسلمان نے انہیں  تسلیم کیا ہے اور اسلا م کے تمام پیروکاروں  کے درمیان ان کے بارے میں  کوئی تردید نہیں  ہے ان کا انکار کرنا اسلا م کا انکار کرنے کے برابر ہے۔

اسلا م انہیں  اصول کے ساتھ پوری تاریخ میں  قطعی ویقینی صورت میں  تھا اور آج بھی ہے نیز آئندہ بھی رہے گا اسلا م انہیں  ارکان پر استوار ہے اور انہیں  خصوصیات کے ساتھ دنیا میں  پہچانا جاتا ہے۔ یہ خصوصیات بالکل واضح طور پر قرآن مبین میں  حضرت خاتم المرسلین (ص) اور حضرات ائمہ معصومین صلوات اﷲ علیہم اجمعین کی سنت میں  بیان کی گئی ہیں  ان آیات وروایات سے اخلاق کے ا طلا ق وجاوید ہونے کا پتہ چلتا ہے۔

امام خمینی  (ره) بھی اپنے آثار میں  انہیں  اصول و ارکان کو بیان کرتے ہوئے ان پر بہت زور دیتے ہیں ۔

ان ارکان اور بنیادی اصول کو ذیل میں  بیان کیا جا رہا ہے ہر اصل ورکن امام خمینی (ره) کے افکار اور آپ کی ہدایات سے بہرہ مند ہوں گے:

الف:  خاتمیت؛

ب:  اسلا م کے نسخ ہونے کا تصور نہیں  ہے ؛

ج:  اسلا م کی جامعیت وتکمیل ؛

د:  اسلا م کی جاودانی ؛

ھ:  اسلا م کا عالمی پیمانہ پر ہونا ؛

و:  بعثت انبیاء  (ع) کا مقصد، اخلاقی مکارم کا اتمام واکمال ہے۔

ای میل کریں