امت واحدہ کی تشکیل میں اسلامی جمہوریہ ایران کا کردار

امت واحدہ کی تشکیل میں اسلامی جمہوریہ ایران کا کردار

اسلامی جمہوریہ ایران نے مسلمانوں کی امت واحدہ کی تشکیل میں متعدد عملی اقدامات کئے ہیں اسی وجہ سے غیر شیعی گروہوں کے ایک بڑے حصے، یہاں تک کہ غیر اسلامی آزادی بخش تحریکوں نے اسلامی انقلاب کو اپنا اسوہ اور نمونہ قرار دیا ہے

اتحاد، قربت ویکجہتی ایک معاشرے کے دوسرے معاشروں پر امتیاز اور برتری کا ایک بڑا عامل ہے ،اسی وجہ سے معاشرتی علوم کے ماہرین ایک معاشرے کے گروہوں میں بٹنے اور چھوٹی چھوٹی اکائیوں میں تقسیم ہونے کو اس ملت کے انحطاط اور اس کی پستی کا اصلی عامل قرار دیتے ہیں ۔

اسی سلسلے میں مسلمانوں کے معاشرے کو شکست دینے کے لیے مسلمانوں کے قسم خوردہ دشمنوں خاص کر امریکہ  نے مدتوں سے گھات لگا رکھی ہے کہ وہ اسلامی مذاہب اور اسلامی ملکوں کے درمیان اتحاد کو پارہ پارہ کر دیں تا کہ اس طرح وہ اپنے پلید افکار کو امت اسلامی کی تشکیل اور اس کی ترقی میں رکاوٹ پیدا کر کے عملی جامہ پہنا سکیں اور جدید اسلامی تمدن کو وجود میں نہ آنے دیں ۔

اس کے مقابلے میں انقلاب اسلامی ایران اور اس کے فقیہ رہنماوں نے انقلاب کے ابتدائی ایام سے ہی مسلمانوں کے اتحاد کو اپنے پروگرام کا سر لوحہ بنا کر رکھا ہے اور اس کو مسلمانوں کی طاقت اور پایدار قدرت اور مسلمانوں کی بر تری اور معاشرے کے کمال اور رشد کی طرف حرکت و پیشروی کا سبب قرار دیا ہے اور تفرقے اور تنازعے کو امت اسلامی کی اندرونی اور بیرونی شکست اور مسلمانوں کی قدرت و شوکت کے کمزور پڑنے کا سبب شمار کیا ہے ۔

حضرت امام خمینی (رہ) کے عقیدے کے مطابق اگر اسلامی حکومتیں اور ملتیں آپس میں متحد ہوتیں  اور ایک امت کی صورت میں ہوتیں تو ممکن ہی نہیں تھا کہ ایک ارب مسلمان دشمنوں کے زیر تسلط ہوں ۔

مسلمانوں کے درمیان اتحاد پیدا کرنا اسلامی انقلاب کا ایک اصلی منصوبہ تھا اور انقلاب کے بانی نے بھی اس سلسلے میں فرمایا تھا ؛ ہم اسلام ،اسلامی ممالک اور ملکوں کے استقلال کا دفاع کرنے کے لیے ہر وقت تیار ہیں ۔ہمارا پروگرام کہ جو اسلام کا پروگرام ہے، مسلمانوں کے درمیان اتحاد ہے  ،اسلامی ملکوں کے درمیان اتحاد ہے ۔ مسلمانوں کے تمام فرقوں کے درمیان برادری پیدا کرنا ہے ،اور پوری دنیا میں تمام اسلامی حکومتوں کے درمیان اتحاد و تعاون پیدا کرنا ہے (صحیفه‏ امام خمینی، 1/336)

انقلاب اسلامی کی کشتی کی ناخدائی امام  خامنہ ای  کو سونپے جانے کے بعد ،آپ نے امام خمینی(رہ) کی طرح انقلاب اسلامی کے تکامل کے لیے جس مجموعے کا ذکر کیا ہے اس میں اسلامی دنیا اور امت اسلامی کی ایجاد کو اس تکاملی مجموعے کا آخری حلقہ قرار دیا ہے اور کہیں کہیں اس کو اسی عنوان سے یاد کیا ہے ۔

ولی امر مسلمین جہان نے اسلامی اتحاد کے مسئلے کو حیاتی مسئلہ قرار دیتے ہوئے فرمایا ہے : آج مسلمانوں کے درمیان اتحاد مسلمانوں کی ایک حیاتی ضرورت ہے  کوئی مذاق اور نعرہ نہیں ہے ۔ واقعا اسلامی معاشروں کو آپس میں  اتحاد پیدا کر کے حرکت کرنا چاہیے۔

اسلامی اتحاد پر مترتب ہونے والے بہت سارے فوائد ہیں کہ جن کی طرف رہبر معظم حضرت امام خامنہ ای  کے بیانات میں اشارہ کیا گیا ہے ،کہ منجملہ مسلمانوں کی عزت اور بیداری کی سمت حرکت ، اسلامی طاقت کا ظہور ، عظمت و قدرت کا احساس ، اسلام کا غالب آنا ، دنیائے اسلام کےنقصان پذیر ہونے کو کم کرنا ، دشمنان اسلام کا وحشت زدہ ہونا، اور دنیائے اسلام میں دشمن کا مرکز بنانے کی اور مسلمانوں کو دھمکانے کی  ہمت نہ کرنا قابل اشارہ ہیں ۔

لیکن ان تمام خصوصیتوں کے اوپر جو روح حکم فرما ہے وہ یہ ہے کہ یہ تمام مقاصد اور فوائد ایک بلند و برتر مقصد کی خاطر ہیں اور وہ اعلی مقصد بلاشک دنیائے اسلام اور ایک امت اسلامی کی ایجاد ہے کہ جس کی زمین پر انسانی سماج کی تمام اکائیاں تمام انفرادی اور اجتماعی کمالات حاصل کرنے میں کامیاب ہوں گی ۔

اسلامی اتحاد کا انقلاب اسلامی کا منصوبہ ،صرف ایک اجتماعی وصیت ،وقتی ضرورت ،اور سیاسی تاکتیک ، اور مشترکہ مادی مفادات کے حصول کی خاطر ایک عملی اقدام نہیں ہے بلکہ اتحاد کی حفاظت اور تفرقے سے بچنے کی کوشش ایک واجب عینی ہے کہ جس کی جڑیں وحدانیت الہی کے اعتقاد کے اندر ہیں ۔

امام خامنہ ای نے اتحاد کی اہمیت اور اسلام اور انقلاب اسلامی میں اس کے اصل ہونے کے بیان میں فرمایا ہے ؛ ہم مسئلہ وحدت کی تائیید کرتے ہیں اور ایک انقلابی اور اسلامی اصل کے عنوان سے اس کے بارے میں تاکید کرتے ہیں اور اسلامی اتحاد کے نعرے کے تاکتیکی ہونے کی نفی کرتے ہوئے فرماتے ہیں ؛ ہم اس امر کو ایک حساس مسئلہ سمجھتے ہیں ایک تاکتیکی اور مصلحتی مسئلہ نہیں کہ اس وقت ہم یہ کہیں کہ ہماری مصلحت کا تقاضا ہے کہ ہم غیر شیعہ مسلمانوں کے ساتھ رابطہ رکھیں ۔ہم نے مسلمانوں کے درمیان اتحاد کے مسئلے کے محرک کو جمہوری اسلامی میں ایک بنیادی مسئلہ قرار دیا ہے ۔

بطور خلاصہ یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ انقلاب اسلامی اور اتحاد اسلامی کے درمیان نسبت دو جانبہ اور ایک دوسرے کی تقویت کی نسبت ہے اس معنی میں کہ اسلامی اتحاد کا اسلامی انقلاب کے تکامل کے مختلف مراحل میں شائستہ کردار رہا ہے اور اس کے مقابلے میں انقلاب اسلامی بھی اسلامی اتحاد کے استمرار اور اس کی تقویت کا اصلی عامل رہا ہے ۔

اسی طرح جمہوری اسلامی ایران کے بنیادی قانون میں بھی قرآن کریم سے استناد کرتے ہوئے حکومت کو موظف کیا گیا ہے کہ اپنی کلی سیاست کو مسلمان ملتوں کے درمیان ہمہ جانبہ اتحاد پیدا کرنے کی راہ میں منظم کرے جو اس آیہء کریمہ کا حکم ہے :" إِنَّ هَذِهِ أُمَّتُكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَأَنَا رَبُّكُمْ فَاعْبُدُونِ(الأنبياء/92)" تمام مسلمان ایک امت ہیں اور حکومت جمہوری اسلامی کی ذمہ داری ہے کہ اپنی کلی سیاست کو اسلامی ملتوں کے اتحاد اور اتفاق کی بنیاد پر استوار کرے اور مسلسل کوشش کرے تا کہ جہان اسلام کی سیاست ،اس کے اقتصاد  اور اس کی ثقافت میں اتحاد پیدا کر سکے۔( قانون اساسی، اصل 11)

قابل ذکر ہے کہ اس چیز کے پیش نظر کہ جمہوری اسلامی ایران نے بہت سارے عملی اقدامات کیے ہیں جیسے اسلامی فرقوں کے لیے دار التقریب کی ایجاد ، عالمی یوم قدس کے مظاہرے ، اور ہفتہ وحدت کا انعقاد ،جن کا مقصد مسلمانوں کے درمیان اتحاد پیدا کرنا ہے اسی لیے بہت سارے غیر شیعی گروہوں ،اور یہاں تک کہ غیر اسلامی آزادی طلب تحریکوں نے اسلامی انقلاب کو اپنا اسوہ اور نمونہ قرار دے رکھا ہے۔

ای میل کریں