اسلامی انقلاب کے سلب اور ایجاب پر مشتمل دو رخ ہیں۔ شاہ کو مسترد کرنا اس کا سلبی پہلو ہے اور اسلامی اقدار کا نفاذ، اس کا ایجابی پہلو ہے جو اپنی جگہ اہمیت کا حامل ہے۔
یہ مقالہ رہبر کبیر انقلاب کے پیغامات، مطالب اور تقریروں سے متعلق لکھی جانے والی کتاب کے نظری حصے کے تجزئے پر مشتمل ہے جس کو سنہ 2007ء میں جناب عباس عبدی نے تحریر کیا ہے اور مؤسسہ تنظیم و نشرآثار امام خمینی(ره) نے شایع کیا ہے۔
1979ء میں رونما ہونے والے واقعات کو سمجھنے کےلئے 1954ء کے بعد پیدا ہونے والی شاہی سلطنت اور معاشرے کی اجتماعی صورتحال اور مذہبی حلقوں میں رونما ہونے والے تغییر و تحول کا صحیح طرح جائزہ لینا ہوگا تاکہ ان واقعات کے جائزے سے ہمیں انقلاب اسلامی کے صحیح ادراک کے ساتھ آیت الله خمینی جو اس انقلاب کے ممکنہ رہبر تھے، کی باتوں کو سمجھنے میں آسانی ہو۔
اسلامی انقلاب پر تبصرہ اور تجزیہ پیش کرتے وقت ہمیشہ سے اس مشکل کا سامنا رہا ہےکہ اس کے فن کے ماہرین نے حسب عادت اس موضوع پر کلاسیک نظریاتی تشخیص کے فارم میں تجزیہ پیش کرنے کی کوشش کی ہے جس کے نتیجے میں حقیقت کے سمجھنے میں دقت پیش آئی ہے اور انہیں مشکل کا سامنا رہا ہے؛ اس لئے اس مضمون میں یہ کوشش کی گئی ہےکہ دنیا میں رونما ہونے والے انقلابات کے تجزئے میں نظریاتی طور پر پیش کئے جانے والے تبصروں سے گریز کرتے ہوئے اسلامی انقلاب کے مختلف پہلووں پر بحث کی جائے۔
1/- مغربی دنیا اور امریکہ کے ساتھ سابق شاہی حکومت کی وابستگی؛
28 مرداد کی بغاوت کے بعد اس وابستگی میں مزید شدت آ جاتی ہے اور انقلاب سے کچھ برس قبل اس حد تک پہنچتی ہےکہ خود امریکی حکام بھی اسے ممکنہ طور پر خطرہ تصور کر رہے تھے۔
2/- انقلاب کے دوران سماجی اور اقتصادی تبدیلیاں۔
1960ء سے 1978ء کے دو عشروں میں ایران کی جی ڈی پی کی شرح نمو میں چھے برابر اضافہ ہوا اور اس طرح حکومت کے موجودہ اخراجات میں 41 اور تعمیراتی منصوبوں میں 65 گنا اضافہ دیکھنے میں آیا۔
انقلاب سے پہلے شاہی سلطنت کے آخری عشرے میں، دیہی علاقوں سے لوگوں کی نقل مکانی کی وجہ سے شہری آبادی میں تقریبا 60 فیصد اضافہ ہوا اور اس کا بیشتر حصہ بڑے شہروں میں آباد ہوا جس کے نتیجے میں شہروں کے اطراف میں بسنے والوں کی تعداد میں کافی حد تک اضافہ ہوا اور دوسری جانب رفاہ عامہ اور ذرائع آمدنی کے لحاظ سے شہروں میں آباد لوگوں کی نسبت دیہی علاقوں کے لوگوں کو محرومی اور عدم مساوات کا سامنا تھا جس نے عوام میں گہرے شگاف ڈالتے ہوئے فاصلے بڑھا دئے۔ شاہ کی کوشش تھی کہ جدید متوسط طبقہ کے لوگوں کے معیار کو مضبوط کرتے ہوئے متوسط روایتی طبقے کو کمزور کر دیں۔
اسی دوران شہروں میں آباد، نچلے طبقے سے تعلق رکھنے والے کارکن اور مزدور بھی مشکل سے دوچار تھے، مہنگائی اور بے روزگاری کی وجہ سے دوسرے معاشرتی طبقوں سے زیادہ ان پر معاشی دباؤ بڑھتا جا رہا تھا، دیہاتوں اور پسماندہ علاقوں کے باشندوں کی صورتحال بھی بالکل اسی طرح تھی۔
جاگیردارانہ نظام کے خلاف ارضی اصلاحات کے قوانین نے جاگیرداروں کو کمزور کردیا تھا اور دیہاتوں میں ان کی جگہ، دو نئے گروہ جنم لے چکے تھے۔
اسی دوران جہاں ایک طرف حکومتی ٹیم میں تبدیلی واقع ہوئی وہی دوسری طرف جاگیرداروں کے اثر و رسوخ سے رہائی کے بعد دیہاتوں میں روحانی حضرات کےلئے زیادہ سے زیادہ حضور کے مواقع فراہم ہوئے، جبکہ اس سے پہلے دیہاتی علاقے جاگیرداروں کے اثر تھے۔
3/۔ جب ہم معاشرے میں ایسے جابر نظام کی بات کرتے ہیں جسے انقلاب مسترد کرتا ہے تو ہمیں جابر حکمراں کے عقائد اور ذاتی رویے پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے اور اس ضمن میں یہ بات ثابت ہےکہ شاہ ایک مغرور اور متکبر انسان تھا اور وہ پورے ملک کے حدود اربعہ یہاں تک کہ لوگوں کو اپنی ملکیت سمجھتا تھا۔
شاہ کی ایک اور خصوصیت یہ تھی کہ وہ دانشوروں، علماء، تاجروں اور سرمایہ داروں کے خلاف تحقیر آمیز زبان کا استعمال کرتا تھا جس کے نتیجے میں ناقدین اور مخالفین یہاں تک کہ عوام کے دلوں میں ان کے خلاف نفرت کو جنم لے رہی تھی۔
4/۔ انقلاب کے دوران مذہبی تبدیلیاں اپنی جگہ بڑی اہمیت کی حامل ہیں، چونکہ اسلامی انقلاب کے سلب اور ایجاب پر مشتمل دو رخ ہیں۔ شاہ کو مسترد کرنا اس کا سلبی پہلو ہے اور اسلامی اقدار کا نفاذ، اس کا ایجابی پہلو ہے جو اپنی جگہ اہمیت کا حامل ہے۔
مختلف ادارہ جات میں روایتی طبقے کے مالی ذرائع اور فنڈز میں توسیع، حوزہ علمیہ، روحانیت اور مساجد و غیرہ جیسے مذہبی اداروں کی تقویت کا سبب ٹھہریں اور اسی کے ساتھ دوسری جانب شاہ کی جانب سے جاگیردارانہ نظام کے خلاف ارضی اصلاحات بھی روحانیت اور علماء کے دیہی علاقوں میں وارد ہونے کےلئے معاون و مددگار ثابت ہوئیں۔ اس کے علاوہ، دیہاتوں سے شہری علاقوں میں نقل مکانی کرنے والے افراد کے درمیان ارتباط کے جو ذرائع تھے وہ بھی مذہبی ادارہ جات ہی تھے اور اس دوران جدید ٹیکنالوجی بھی دین اور مذہب کی خدمت کےلئے استعمال میں لائی گئی جس نے دین کی تبلیغ میں سرعت بخشا؛ سپیکر، ٹیپ ریکارڈر خاص طور پر، قرآن مجید، تقاریر اور نوحوں پر مشتمل کیسٹوں نے مارکیٹ میں ایک عظیم حصے پر اپنا قبضہ جمایا یہاں تک کہ دیہاتی علاقوں میں بھی یہ کیسٹیں پہنچ گئی اور مذہب کے لبادے میں یہ تمام اسباب، متوسط روایتی طبقے سے تعلق رکھنے والے اور نچلے طبقے کے شہری نیز دیہاتی لوگوں میں زیادہ سے زیادہ قربت کے فروغ باعث بنے۔
1964ء اور 15 خرداد کے قیام کے بعد شاہی حکومت کے خلاف جد و جہد کے حوالے سے بے اعتمادی کی سابقہ فضا نے ایک نیا رخ اختیار کیا اور لوگوں کا اسلام کی طرف رجحان بڑھتا گیا جو روایتی طبقات اور دیہاتی لوگوں سمیت شہر میں رہنے والے متوسط طبقے کے لوگوں میں واضح طور پر دیکھنے میں آ رہا تھا۔
جس سماج میں بہت تیزی سے تبدیلی رونما ہوتی ہے اس سماج میں مختلف سماجی گروہوں کے درمیان اتحاد اور یگانگت ہونا ایک لازمی امر ہے اس مقصد کی تکمیل کےلئے مذہب ایک اچھا پلیٹ فارم تھا۔
ایک اور عامل جو جدید متوسط طبقے کے اسلام کی جانب رجحان میں موثر واقع ہوا، غیر اسلامی رجحانات کا زوال تھا۔ 1964ء کے قیام اور ارضی اصلاحات کے بعد، شاہ کا خیال تھا کہ مذہبی ادارے رو بہ زوال ہونگے، تاہم حالات اس کے تصور کے خلاف جا رہے تھے اور مذہبی اور روحانی ادارے کی تضعیف پر مبنی ان کے اقدامات، یکی بعد دیگری مسلسل ناکامی کا شکار ہو رہے تھے۔