مدرسہ فیضیہ کے دردناک حادثہ اور ماہ محرم کے درمیانی فاصلہ میں (یعنی ۱۲فروردین)۲۲مارچ(سے ۴ خرداد)۲۵مئی( تک ۱۹۶۴م)امام خمینی رح کی شاہ سے مقابلہ زیادہ تر مختلف پوسٹروں اور ہینڈبل کی شکل میں تھا لیکن ماہ محرم کی آمد سے خطرناک صورتحال پیدا ہوگئی اور وسیع پیمانہ پر آمنے سامنے کا مقابلہ شروع ہوگیا۔ ایام محرم، شاہ کے جرائم اور اس کے اسلامی مخالف پروگراموں کو برملا کرنے کا بہترین موقع تھا۔ ساواک جو اس مہینہ کی قدر ومنزلت سے بخوبی واقف تھی محرم کے آغاز سے پہلے ہی بہت سارے واعظوں کو بلا کر انہیں کو اس بات کا پابند کیا کہ مجالس و محافل میں ، ۱۔ شاہ کے خلاف کوئی بات نہ کریں۔ ۲۔ اسرائیل کے خلاف کوئی بات نہ کہیں۔ ۳۔ ہمیشہ لوگوں سے یہ نہ کہیں کہ اسلام خطرے میں ہے۔
امام خمینی رح نے مراجع اور علماء قم سے ایک نشست میں یہ درخواست کی کہ روز عاشورا ان میں سے ہر ایک عزاداران حسینی اور ماتم داران سید الشہداء کے لئے تقریر کرے اور شاہ کے مظالم اور اس کی جرائم کا پردہ فاش کرے۔ امام خود بھی شاہ کی دھمکی کے باوجود عاشورکے دن ۴/بجے سپہر تقریر کرنے کے لئے مدرسہ فیضیہ کی طرف روانہ ہوئے اور یہ ۱۳/ خرداد ۴۲ھ ش مطابق ۳جون ۱۹۶۴ء کی بات ہے جو روز عاشورا تھا۔
آپ نے کربلا کے دلخراش مصائب وآلام کا تذکرہ کرنے کے بعد شاہ کے درندہ صفات کارپردازوں کے مدرسہ فیضیہ پر حملہ کو کربلا کے دلخراش مصائب سے تشبیہ دی اور اس تلخ و ناگوار حادثہ کو اسرائیل کی تحریک کا نتیجہ جانا اور شاہ کو اسرائیل کا آلہ کار کہا۔ امام نے اسی طرح اس بات کی طرف بھی اشارہ کیا کہ ساواک نے واعظین کو اس بات کا پابند کیا ہے کہ وہ شاہ اور اسرائیل کو برا نہ کہیں اور یہ نہ کہیں کہ اسلام خطرے میں ہےآپ نے فرمایا: "ہماری تمام گرفتاریاں اور مشکلات اور اختلافات انہیں تینوں موضوع میں خلاصہ ہوتے ہیں۔ اگر ہم نہ کہیں کہ اسلام خطرے میں ہے تو کیا خطرہ کے دہانہ پر نہیں ہے؟ اگر ہم نہ کہیں شاہ ایسا ہے ویسا ہے، کیا ایسا نہیں ہے؟ اگر ہم نہ کہیں اسرائیل مسلمانوں اور اسلام کے لئے خطرہ ہے، کیا خطرناک نہیں ہے؟ اور اصولی طور پر شاہ اور اسرائیل کے درمیان کون سا ارتباط اور کون سی مناسبت ہے کہ حفاظتی ادارہ کہتا ہے شاہ کی بات نہ کرو، اسرائیل کی بات نہ کرو؟ کیاحفاظتی ادارہ ساواک کی نظر میں شاہ، اسرائیلی ہے؟ " (صحیفہ امام، ج ۱، ص۲۴۷)
امام کی ہلادینے اور پردہ فاش کرنے والی تقریر نے شاہ کو پہلے سےکہیں زیادہ لوگوں کے نزدیک ذلیل و رسوا کردیا۔ اس تقریر کے دودن بعد ۵/ جون ۱۹۶۴ء کی سحر کو امام کو شاہ کے حکم سے قم ان کے گھر میں گرفتار کرکے تہران لایا جاتا ہے۔ اور آپ کو پہلے ایک انفرادی قید خانہ میں کیا جاتا ہے اور اس کے بعد ایک فوجی چھاونی میں جہاں مکمل حفاظتی انتظام تھا، منتقل کردیا جاتا ہے۔
۵/جون ۱۹۶۴ء بوقت صبح جب امام خمینی رح کی گرفتاری کی خبر پھیلی کہ امام اپنے گھر سے شاہ کے حکم سے گرفتار ہوچکے ہیں تو۵/جون سے ہی قم، تہران، ورامین، مشہد اور شیراز میں وسیع پیمانے پر اعتراضات ہونے لگے جو امام کی طرفداری اور شاہ کی مخالفت کے نعروں پر مشتمل تھے۔ پولیس اور فوج کے افراد جو قم و تہران کی حساس اور مرکزی جگہوں پر تعینات تھے مظاہرہ کرنے والوں پر آنسو گیس کے گولے پھینکے لوگوں نے بھی لکڑی ڈنڈا اور پتھر وغیرہ سے اپنا دفاع کرنا شروع کیا اور احتجاج اور مظاہروں کا سلسلہ اس دن اور اس کے دو روز بعد تک جاری رہا اور ہزاروں لوگ قتل اور مجروح ہوئے سب سے زیادہ دردناک حادثہ و رامیں کفن پوش کسانوں کے قتل عام کا تھا جو امام خمینی رح کی حمایت میں تہران کے لئے روانہ ہو چکے تھے، فوج کے لوگ باقر آباد کے پل پر ان سے روبرو ہوئے اور بھاری بھرکم ہتھیاروں سے ان کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ قیام کے سرد پڑنے کے بعد وزیر اعظم اسد اللہ اعلم نے ۷/جون ۱۹۶۴ء کے روز ہرالو تریبون نامی اخبار کے انٹرویو میں دھمکی دی کہ امام اور دوسرے بعض علماء پر فوجی عدالت میں مقدمہ چلے گا اور ممکن ہے ان کےقتل کا حکم صادر ہو۔ شاہ نے بھی دو دن بعد اپنی ایک تقریر میں امام خمینی رح کے بیانات اور ایرانی عوام کے مظاہروں اور احتجاج کو بیگانوں (جمال عبدالناصر) کی تحریک اور کرنسی کا نتیجہ جانا۔ کیونکہ جمال عبدالناصر اس زمانے میں شاہ اور اسرائیل کے درمیان بڑھتے روابط کی وجہ سے شاہ سے ناراض اور آگ بگولہ تھے، امام کی گرفتاری کے چند روز بعد ایران کے دسیوں علماء اور مراجع نے امام خمینی رح کی گرفتاری پر اعتراض اور آپ کی حمایت کے عنوان سے تہران مہاجرت کی۔ علماء کا اعتراض اور عوامی بغاوت کا بڑھتا دباو باعث ہوا کہ امام کو دو مہینہ ایک فوجی چھاونی میں رکھنے کے بعد شہر تہران کے شمال میں ایک گھر میں منتقل کردیا اور نظر بندکردئیے گئے۔ دوسرے دن صبح سے ہی تہران اور شہرستانوں کے دوکانداروں نے امام کی نسبی آزادی کی مناسبت سے اپنی دوکانوں کے اوپر پرچم نصب کئے، چراغاں کیا اور مٹھائیاں تقسیم کیں۔