تمام مسلمان مصلحین نے اس مقصد کے پیش نظر قرآن کی طرف بازگشت کا مسئلہ اٹھایا ہے کہ اسلامی معاشرے کو دوبارہ زندگی کی طرف پلٹائیں اور اسلام کے دوبارہ احیاء اور اس کے عظیم مقاصد کے حصول کے طریقہ ہائے کار پیش کریں ۔ قرآن کی طرف بازگشت کے دو رخ ہیں ۔ ایک اس کا داخلی رخ ہے اور ایک بیرونی۔ بیرونی رخ غیر ملکی سامراج کے تسلط اور اس کے ہاتھوں مسلمانوں کے اموال کی لوٹ مار روک تھام کرنے اور داخلی رخ درخشاں اسلامی تہذیب وتمدن کی طرف بازگشت اور اتحاد بین المسلمین سے عبارت ہے ۔
سید جمال الدین اسد آبادی (ره) اس بات کے قائل تھے کہ قرآن مسلمانوں کے بیچ ایک اجنبی کی حیثیت رکھتا ہے اور ظاہری صورت اور زینت کے علاوہ معاشرے میں اس کا کوئی کردار نہیں ہے اور قرآن کا مقصد بیداری اور عزت کا حصول ہے جس کو بھلا دیا گیا ہے۔ امام خمینی (ره)بھی قرآن کی طرف بازگشت کیلئے انہی نکات کو بیان کرتے ہیں اور کہتے ہیں : کتاب زندگی ہمارے خود ساختہ پردوں کے نیچے دب چکی ہے اور ہماری فکروں کے ٹیڑھے پن کے تلے دفن ہو چکی ہیں ۔( صحیفہ امام، ج ۲۱، ص ۷۸) اگر ہم چاہتے ہیں کہ قرآن کو مہجوریت سے باہر نکالیں تو ہمیں چاہیے کہ اچھی طرح لوگوں کو تعلیم دیں اور مشکلات کے ساتھ آشنا کریں ۔آپ ایک اور جگہ پر مہجوریت قرآن کی وجہ عدم فہم قرآن کو قرار دیتے ہیں اور بازگشت کی راہ فہم قرآن کو سمجھتے ہیں ۔( صحیفہ امام، ج ۷، ص ۳۹۳)
قرآن کے متروک ومہجور ہونے کے ایک حصے کا تعلق چونکہ قرآن کے سماجی اور سیاسی مسائل سے ہے اس لیے آپ سیاسی اور سماجی امور سے متعلق آیات زیر بحث لائے جانے کی تجویز پیش کرتے ہیں ۔( صحیفہ امام، ج ۱۵، ص ۱۱)
دلچسپ بات یہ ہے کہ امام (ره)بھی سید جمال الدین (ره)کی طرح قرآن سے دوری کی وجہ اسلامی حکومتوں کے روئیے اور ان کی مخالفت کو جانتے ہیں۔آپ کے نزدیک باطل اور ظالم اسلامی حکومتیں قرآن کو اپنے ظلم وستم اور حق تعالیٰ کے دشمنوں کے غلط اقدامات کے جواز کیلئے استعمال کرتی ہیں ۔ (صحیفہ امام، ج ۱۶، ص ۳۴)
اس جگہ پر قرآن کی طرف بازگشت کی ایک اور راہ حکومتوں کے ڈھانچے کی اصلاح اور ان کی تبدیلی کو قرار دیا جاتا ہے۔ آپ لکھتے ہیں :
’’اسلامی حکومتوں نے تقریباً ایک ارب آبادی اور زمین دوز ذخائر خصوصاً تیل کی بڑی مقدار کہ جو بڑی طاقتوں کی شہ رگ حیات ہے، رکھنے اور قرآن کی زندگی عطا کرنے والی تعلیمات کا حامل ہونے کے باوجود اپنے غلط افکار، ناجائز مقاصد اور بڑی طاقتوں کے وسیع پروپیگنڈے کے ذریعے کیوں نوبت یہاں تک پہنچا دی ہے کہ اب سیاسی اور اجتماعی امور میں حصہ لینے کو کہ جس کی بہت ضرورت ہے اور جو مسلمانوں کے اہم امور میں شامل ہے، جرم جانا جاتا ہے‘‘۔(صحیفہ امام، ج ۱۵، ص ۲۹۰)
بنابریں ، امام خمینی (ره)فکر میں تبدیلی، مسلمانوں کی علمی سطح بلند کرنے، پٹھو، بکی ہوئی اور ڈکٹیٹر حکومتوں کی سرنگونی، آزاد اور عادل حکومتوں کی تشکیل، اختلافات کے خاتمے، روزمرہ زندگی میں قرآن پر عملدر آمد اور اس کی زندگی بخش تعلیمات سے بہرہ مند ہونے کو قرآن کی جانب بازگشت قرار دیتے ہیں اور یہ صرف اس صورت میں ممکن ہے کہ جب قرآن کا دروازہ لوگوں کیلئے کھلا ہوا ہو اور دانشمند افراد قرآن کے مقاصد اور تعلیمات کے بارے کتابیں لکھیں اور مفسر خدائی تعلیمات لوگوں کو سکھائیں اور ان تعلیمات کو ان سے سیکھیں ، ان کی طرف رجوع کریں اور ان سے استفادہ کریں ۔ (آداب الصلاۃ، ص ۱۹۴)