ہرمینوٹک معنی کی وضاحت کے اسلوب وروش کا نام ہے اور عرفانی ہرمینوٹیک سے مراد وہ ہرمینوٹک ہے کہ جو انسان کے موجود ہونے اور اس کے مقصد تخلیق کو کمال کے ساتھ عشق سے تعبیر کرتی ہے۔
امام خمینی (ره) کے نزدیک انسان کہ جو ’’کائنات کا خلاصہ‘‘ اور ’’کائنات کا نچوڑ‘‘ ہے اپنی ماہیت کی بناپر کمال کی جانب بڑھ رہا ہے۔ امام خمینی (ره) فرماتے ہیں : ’’بنی نوع انسان میں ایک فطرت جو پائی جاتی ہے۔۔۔ کمال کے ساتھ عشق کی فطرت سے عبارت ہے۔ اگرچہ کمال کی تشخیص اور اس میں کہ کمال کس چیز میں ہے اور محبوب ومعشوق کون ہے لوگوں کے درمیان بہت زیادہ اختلاف پایا جاتا ہے۔۔۔ لیکن یہ جاننا چاہئے کہ اس سب کے باوجود ان میں سے کسی ایک کو بھی اس سے محبت اور عشق نہیں ہے جس کے ساتھ عشق ومحبت کی ان کو غلط فہمی ہے۔ کسی ایک کا بھی معشوق اور منتہائے آرزو وہ نہیں ہے جس کا ان کو گمان ہے، کیونکہ جو شخص بھی اپنی فطرت کی جانب رجوع کرتا ہے وہ جان لیتا ہے کہ اس کا دل جس کی طرف مائل ہے اگر اس کو اس سے بلند درجہ نظر آئے تو وہ فوراً اس پہلے سے منہ پھیر لیتا ہےاور دوسرے کی جانب کہ جو زیادہ کامل ہوتا ہے مائل ہوجاتا ہے۔ کیا عالم تصور وخیال کے تمام موجودات میں اور تمام تجویزات عقلیہ واعتباریہ میں خالق کائنات کی ذات مقدس (جلّت عظمتہ) کے سوا کوئی ایسا موجود ہے جو کمال مطلق کا حامل ہو؟ کیا اس محبوب مطلق کے علاوہ کوئی بے عیب جمیل علی الاطلاق ہے؟
البتہ امام خمینی (ره) کے نزدیک کمال مطلق کے وصال تک کا راستہ طے کرنا انسان کی وجودی مشکل (Ontological Problematic) ہے جبر نہیں ۔ یہ انسانی ارادہ ہی ہے جو کمال سے ہمکنار ہونے کو ممکن بناتا ہے۔ امام خمینی (ره) کے نزدیک انسان دو راہے پر کھڑا ہے۔ ’’ایک راستہ، انسانیت کا راستہ ہے، یہ سیدھا راستہ ہے۔ ایسا سیدھا راستہ کہ جس کا ایک سرا فطرت کے ساتھ ملا ہوا ہے اور دوسرا سرا لوہیت کے ساتھ۔ آپ ان دو راستوں میں سے کسی ایک راستے کے انتخاب میں مختار ہیں ‘‘۔)صحیفہ امام، ج ۷، ص ۲۲۵(
بنابریں امام خمینی (ره) کے نزدیک انسان ایک ایسا موجود ہے جو اپنی وجودی خصلت (یعنی ارادے) کے ساتھ وجودی معنی (یعنی کمال) حاصل کرسکتا ہے۔ امام خمینی (ره) کے کلامی زاویہ نگاہ میں انسانی ارادے پر آپ کی تاکید بہت نمایاں ہے۔ آپ نے جبر وتفویض دونوں کو ہی مسترد کرتے ہوئے انسان کے ارادے کی مرکزیت کی تاکید کی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ آپ اس کے وجود شناسی کے عدم خودمختاری کے قائل ہیں ۔
آپ فرماتے ہیں : ’’موجودات امکانی مؤثر ہیں لیکن بطور استقلال نہیں ، بلکہ ان کیلئے فاعلیت، علیت اور تأثیر ہے۔ البتہ اسی طرح نہیں کہ یہ فاعلیت، علیت اور تأثیر میں خودمختاری اور مستبد ہوں ‘‘۔(صحیفہ امام، ج ۱۳، ص ۷۳)
امام خمینی (ره) ایک اور کلامی بحث میں بعثت انبیاء(ع) کا ہدف ایک بامقصد سلوک (Teleological) سے متعلق قرار دیتے ہیں ’’انسان میں بالقوہ باطن کا مرتبہ، عقل کا مرتبہ اور عقل سے بڑھ کر ایک مرتبہ ہے۔ شروع سے ہی انسان کی فطرت وسرشت میں یہ سب ہے کہ وہ عالم فطرت سے چل کر ان مقامات تک پہنچ سکتا ہے کہ جو ہمارے وہم وگمان سے بھی بالاتر ہیں ۔ اس سب کیلئے تربیت درکار ہے۔۔۔ انبیاء (ع) اسی لئے آئے ہیں کہ انسان کو ان مقامات تک پہنچائیں جن مقامات تک کیلئے دوسرے لوگ، ماہرین طبیعیات تربیت نہیں کرسکتے اور نہ ہی پہنچا سکتے ہیں ۔ انبیاء کا مقصد یہ تھا کہ تمام امور کو الٰہی بنا دیں ۔ کائنات کے تمام پہلوؤں کو اور انسان جو کہ کائنات کا خلاصہ ہے کے تمام پہلوؤں کو الٰہی بنا دیں ‘‘(صحیفہ امام، ج ۷، ص ۵۹)
امام خمینی (ره) کے نزدیک نبوت کا مقصد انسان کے اپنے عمل کے ساتھ ہی حاصل ہوتا ہے۔ انسان کی بقایا فنا اس کے اپنے عمل کا نتیجہ ہے۔ نبوت انسان کی سعادت کا ذریعہ ہے اور یہ سعادت انسان کے عمل سے حاصل ہوتی ہے۔ ’’جسمانی جنت ودوزخ انسان کے اچھے وبرے اعمال وافعال ہی کی صورتیں ہیں ۔۔۔ عالم بہشت وجہنم دو جداگانہ عالم اور دار ہیں اور انسان حرکات جوہریہ، ملکوتی سلوک اور حرکات ارادیۂ عملیہ وخلقیہ کے ساتھ ان کی جانب بڑھ رہے ہیں ‘‘۔(چہل حدیث، ص ۳۰۸)
امام خمینی (ره) کے نزدیک حبّ نفس کے سانچے میں ڈھلا ہوا اندرونی شر انسان کی ماہیت وجودی کے وجود میں آنے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے اور تزکیہ نفس اس کے مقابلے کا عملی طریقہ ہے۔ آپ فرماتے ہیں : ’’تمام روحانی، اخلاقی اور اعمال کی برائیوں کی وجہ دنیا سے محبت اور حق تعالیٰ اور آخرت سے غفلت ہے۔۔۔ اور مؤثرترین علاج ۔۔۔ یہ ہے کہ آپ اپنے اندر برے ملکات میں سے جو برا ملکہ بھی دیکھیں تو اس کو مدنظر رکھ کر اس کے خاتمے کیلئے کمر ہمّت باندھ لیں ‘‘۔(چہل حدیث، ص ۱۳۷)