امام خمینی (رہ) کا شہید فاونڈیشن کے اہلکاروں سے خطاب

شہید فاونڈیشن کے اہلکاروں سے خطاب

میں امید رکھتا ہوں خداوند عالم ان کو مجاہدین کا ثواب عنایت فرمائے

شہید کے بارے میں اس قدر اسلام اور اولیاء اسلام سے روایات وارد ہوئیں ہیں کہ شہادت کی فضیلت کے بارے میں انسان حیران ہو جاتا ہے۔ ان میں سے بعض روایات کا ترجمہ آپ کی خدمت میں عرض کرتا ہوں تاکہ آپ کو معلوم ہو کہ آپ کو کن لوگوں کی خدمت کا شرف حاصل ہوا ہے اور آپ کی تحریک کی کیا قدر و قیمت ہے۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم

ہر کام کی قدر و قیمت جس کے لیے وہ کام انجام دیا جاتا ہے۔ اس کی قدر و قیمت کے مطابق ہوتی ہے ہر شخص جو کام بھی خدا کی راہ میں خلق خدا کے لیے انجام دیتا ہے وہ قدر و قیمت رکھتا ہے اگر چہ اقدار مختلف ہوتے ہیں قیمتیں مختلف ہو جاتی ہیں ان لوگوں کی قدر و قیمت کے اعتبار سے جن کی ہم خدمت کرتے ہیں جو بھی مئوسسہ اور ادارہ خدا کی راہ میں لوگوں کی خدمت انجام دے رہا ہے اور جو اشخاص بھی کلمہ اسلام کی سر بلندی کے لیے کام کر رہے ہیں یہ سب خدا کے نزدیک قدر و منزلت کے حامل ہیں۔ اور انشاء اللہ خدا کے نزدیک مورد عنایت قرار پائے ہیں۔ لیکن ادارہ شہید کی قدر و قیمت شہید کی خدمت اور شہیدوں کے لواحقین کی خدمت اور ان لوگوں کی خدمت جنہوں نے اسلام کی راہ میں فداکاری کا مظاہرہ کیا اور لیکن معذور ہو گئے یا اپنے کسی اعضاء کو کھو بیٹھے یا مختلف طرح کے زخموں کے متحمل ہوئے، یہ ساری خدمتیں اور ان کی قدر و قیمت جو اسلام کے شہیدوں یا اسلام کے فداکاروں کے لیے انجام دی جاتی ہیں دوسری تمام خدمتوں سے کہیں زیادہ ہے۔

 

شہادت کی فضائل

شہید کے بارے میں اس قدر اسلام اور اولیاء اسلام سے روایات وارد ہوئیں ہیں کہ شہادت کی فضیلت کے بارے میں انسان حیران ہو جاتا ہے۔ ان میں سے بعض روایات کا ترجمہ آپ کی خدمت میں عرض کرتا ہوں تاکہ آپ کو معلوم ہو کہ آپ کو کن لوگوں کی خدمت کا شرف حاصل ہوا ہے اور آپ کی تحریک کی کیا قدر و قیمت ہے۔ پیغمبر اسلام[ص] سے ایک روایت نقل ہوئی ہے کہ شہیدوں کے لیے سات خصلتیں ہیں ان میں پہلی ہہ ہے کہ جیسے ہی شہید کے خون کا پہلا قطرہ زمین پر گرتا ہے اس کے سارے گناہ معاف کر دئے جاتے ہیں اور وہ بخش دیا جاتا ہے اور ان سب میں مہم اس کی آخری خصلت ہے اس روایت کے مطابق کہ شہید اللہ کے چہرے کا دیدار کرتا ہے یہ دیدار ہر نبی اور شہید کے لیے آسان ہے شاید اس کا مطلب یہ ہو کہ وہ حجابات جو ہمارے اور حق تعالی کے درمیان موجود ہیں یا وہ حجابات جو خدا اور اس کی تجلیات کے درمیان ہیں سارے اٹھ جاتے ہیں۔

اگر چہ ان سارے حجابات اور پردوں کا تعلق خود انسان سے ہے انسان خود ایک بہت بڑا حجاب ہے خواہ یہ حجاب ظلمت کا ہو یا ان حجابوں کا تعلق نور سے ہو، بہر صورت ان سب پردوں کا تعلق خود انسان سے ہے ہماری ذات خود اپنے اور خدا کے درمیان ایک حجاب ہے ۔ چنانچہ کوئی اگر راہ خدا میں اپنے دار و ندار کو قربان کر دے اور اپنی ہستی کو اس کے حضور میں تقدیم کر دے گویا اس نے تمام حجابوں کو درکنار کر دیا بلکہ تمام حجابوں کی بنیادوں کو مٹا دیا اس لیے کہ اس نے خود کو مٹا دیا خود بینی اور اپنی شخصیت کو فنا کر دیا ہے اپنے آپ  کو حضور الہی میں تقدیم کر دیا ہے کیونکہ اس نے خدا کے لیے جہاد کیا ہے خدا کے لیے دفاع کیا ہے خدا کے ملک اور اس کے آئین کے لیے جو کچھ بھی اس کے پاس تھا خلوص کے ساتھ راہ خدا میں قربان کر دیا ان تمام قربانیوں کے نتیجہ میں اپنے اور ذات برحق کے مابین پردوں کو ہٹا دیا ہے۔

لہذا وہ شہداء جنہوں نے خدا کے لیے اور اس کی راہ میں اپنی جانوں کو قربان کر دیا اور جو کچھ بھی ان کے پاس تھا یہاں کہ اپنی سب سے قیمتی چیز جان کو بھی راہ خدا میں قربان کر دیا اور اس کے بدلہ میں لقاء اللہ کے مقام کے خریدار ہو گئے ان کے اور ان کے خدا کے درمیان سارے حجاب مٹ گئے ذات الہی کے جلوے متجلی ہو گئے بلکل اسی طرح جس طرح انیباء کے لیے۔ اس لیے کہ انبیاء بھی تمام چیزوں کو خدا کے لیے چاہتے ہیں وہ خودی کے قائل نہیں ہیں وہ خود کو بھی خدائے برحق کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور اپنے لیے کسی طرح کی شخصیت کے قائل نہیں ہوتے ۔ خدائے منان کے مقابلہ میں اپنے لیے کسی حیثیت کے قائل نہیں ہوتے وہ بھی ان قربانیوں کے نتیجے میں ان حجابوں کو مٹا دیتے ہیں۔


فلما تجلی ربہ بالجبل جعلہ دکا

انہوں نے اپنی حیات میں ہی انبیاء اور اولیاء کے مانند وہ چیزیں جو ان کی حیات میں خدا اور ان کے درمیان رکاوٹ بنی ہوئی تھیں اپنے اور خدا کے درمیان سے انہیں مٹا دیا ان کے لیے صاعقہ یعنی ایک تیز بجلی چمکتی ہے اور ایک اختیاری موت انہیں حاصل ہوتی ہے اور خدائے متعال ان پر متجلی ہوتا ہے اور انہیں دیکھتا ہے انہوں نے بھی اپنی عقلی ، باطنی، روحی اور عرفانی نگاہوں سے اپنے معبود کو محسوس کیا اور مشاہدہ کیا شہید بھی اس روایت کے مطابق انبیاء کے مانند جیسے ہی مقام شہادت کو حاصل کرتا ہے خدا وند اس کے اوپر متجلی ہوتا ہے اور وہ بھی خدا کے جلووں کو مشاہدہ کرتا ہے اور انسان کے لیے یہ آخری منزل ہے یہ وہ آخری کمال ہے جو رب العزت نے انسان کے لیے معین کیا ہے یہ روایت جو کافی میں نقل ہوئی ہےاس میں انبیاء کو شہدا کا ہمنشین بتایا گیا ہے جس طرح خدا وند عالم انبیاءکو اپنے جلوے دکھاتا ہے اسی طرح شہداء کو بھی اپنے جلوے دکھاتا ہے۔ جس طرح انبیاء بھی تمام پردوں کو ہٹا کرکے انسان کے لیے جو آخری مقام ہے اس تک رسائی حاصل کرتے ہیں اسی طرح شہداء بھی تمام حجابوں کو مٹا کر کے سینظر الی وجہ اللہ کے مقام پر فائز ہو جاتے ہیں اور شہیدوں کے لیے یہ بشارت ہے کہ شہداء بھی انبیاء کی طرح اپنے وجودی استعداد کے مطابق اس آخری مقام پر فائز ہوں گے اور اس آخری منزل کو حاصل کریں گے۔

 

فاونڈیشن میں خدمت تمام خدمتوں کی بنیاد اور اساس ہے۔

شہید فاونڈیشن میں خدمت تمام خدمتوں کی جڑ اور بنیاد ہے شہید فاونڈیشن تمام اداروں اور موسسات سے افضل اور برتر ہے اس لیے کہ شہداء تمام لوگوں سے زیادہ افضل اور برتر ہیں۔ شہید فاونڈیشن میں خدمت تمام خدمتوں کی بنیاد اور اساس ہے۔ سب لوگ جو خدمت کررہے ہیں سب خدا کے لیے کر رہے ہیں اور یہ سب کے لیے فضیلت ہے اور سب لوگ خدا کی بارگاہ میں مقام و منزلت رکھتے ہیں تمام خدمتگزار جو خدمت کر رہے ہیں جو جنگ زدہ افراد کی خدمت میں مشغول ہیں ان کی خدمت بھی فداکاروں کے لیے ہے یہ جنگ زدہ افراد جو حال میں ایران میں مقیم ہیں اور اپنے وطن سے دور ہیں ان کی خدمت بھی حقیقت میں فداکاروں کی خدمت ہے لیکن شہیدوں کی خدمت کی قدر و قیمت تمام خدمتوں سے بالا و برتر ہے۔

 

والسلام علیکم و رحمۃ اللہ۔

تاریخ:12/01/1981
صحیفہ، 13،ص 514۔518

 

ای میل کریں