ہمارے زمانے میں جو چیز "اسلامی انقلاب" کے نام سے ظہور پذیر ہوئی ہے دوست اور دشمن ہر ایک کے تصورات سے بالاتر تھی۔ مختلف ممالک میں اسلامی تحریکوں کی مسلسل شکست کی وجہ سے مسلمان یہ سوچنے لگے تھےکہ جو وسائل دشمنان اسلام کے اختیار میں ہیں ان کو دیکھتے ہوئے اسلامی حکومت کی تشکیل عملا ممکن نہیں ہے۔
دوسری طرف مخالفین اسلام بھی اپنے منصوبوں اور سازشوں کے تحت مطمئن ہو چکے تھےکہ خود مسلمانوں اور اسلامی ملتوں کے درمیان انہوں نے مذہب، قوم، نسل اور مسلک کے نام پر جو اختلافات پیدا کر دیئے ہیں، ان کی بنیاد پر ان ممالک میں "اسلامی حکومت" نام کی کوئی شے وجود میں لانا اب کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔
خود ایران کے اندر گزشتہ برسوں میں پہلوی حکومت کے ہاتھوں اسلام کی جڑیں اکھاڑ پھینکنے کی کوششیں کی گئیں۔ پہلوی شہنشاہیت نے نہ صرف اپنے دربار میں بلکہ ملک کے تمام حساس مقامات پر اخلاقی اقدار کی پامالی کا بازار گرم کر رکھا تھا۔ ایسے ملک میں اسلامی انقلاب کی کامیابی یقینا ناقابل تصور اور غیر معمولی چیز تھی۔
بلا شبہ جس ہستی نے اس انقلاب کی قیادت و رہبری کی ملکی و غیر ملکی تمام تر رکاوٹوں اور مادی وسائل کی کمیوں کے باوجود، پوری ملت کو اپنے گرد جمع کرکے نہ صرف اس اسلامی انقلاب کو ایران میں کامیابی سے ہمکنار کیا بلکہ پورے عالم اسلام میں اسلامی حریت کا بیج چھڑک دیا اور مسلمانوں میں ایک نئی امن اور ولولہ بیداری و آگاہی کی انقلابی کیفیت پیدا کر دی۔ یقینا یہ ہستی عالم اسلام کی ایک غیر معمولی اور استثنائی شخصیت کی حامل ہے۔ ظاہر ہے اس عظیم ہستی نے مسلمانوں کی آگاہی اور بیداری، ان کے درمیان اتحاد و یکجہتی اور ان کے امراض کی تشخیص اور علاج کے سلسلہ میں بے پناہ تکلیفیں اور مشقیں اٹھائی ہیں...
حضرت امام خمینی قم شہر میں علماء کے ایک وفد کے سامنے فرماتے ہیں:
میں چاہتا ہوں کہ اسلامی امتیں اٹھ کھڑی ہوں اور وحدت کلمہ کے ساتھ اسلام اور ایمانی قوت پر بھروسہ کرتے ہوئے غیروں پر اور ان تمام طاقتوں پر جو ملت کو ہمیشہ اپنے اختیار اور تسلط میں رکھنا چاہتی ہیں، غلبہ حاصل کریں۔ صدر اسلام میں مسلمانوں کی کامیابی کا راز یہی وحدت کلمہ اور ایمانی قوت تھی اور اب احساس بھی کرتا ہوں اور لمس بھی کرتا ہوں کہ اگر ملت آپس میں اتحاد پیدا کرے، اگر مختلف جماعتیں ایک ہو جائیں تو بڑی طاقتیں بھی ان کا مقابلہ نہیں کر سکتیں...
خداوند تبارک و تعالی اگر توفیق دے اور ہم اور ہماری ملت اس راز کو ہمیشہ مدنظر رکھیں تو مجھے امید ہےکہ ہم اس اسلامی حکومت اور اسلامی احکام کو استقرار دے سکتے ہیں لیکن اس کےلئے وحدت کلمہ کی ضرورت ہے...
یہ وحدت کلمہ محفوظ رہنا چاہیئے کیوںکہ اگر خدا ناخواستہ یہ وحدت کلمہ ہاتھ سے چلی گئی اور ہم شکست سے دو چار ہوئے تو پھر کبھی ایران کے چہرے پر اس کی شاد مانی لوٹ کر نہ آسکے گی۔
بنابرایں، ہم سب کا فریضہ ہےکہ اس تحریک کی حفاظت کریں اور وحدت کلمہ کو محفوظ رکھیں...
مسلمانوں کو چاہیئے کہ وہ ایک دوسرے کو پہچانیں اور خود اپنے آپ کو بھی پہنچانیں، اس فکر میں نہ رہیں کہ بڑی طاقتیں کیا ہیں؟ سب کے سب باہم جمع ہوں، باہم اتحاد برقرار رکھیں تاکہ انشاء اللہ کامیاب ہوں اور انشاء اللہ کامیاب ہونگے۔
مجھے امید ہےکہ یہ انقلاب اور تحریکیں جو مسلمانوں کے درمیان وجود میں آ چکی ہیں، ہر جگہ متحد رہیں اور وحدت کلمہ کے ساتھ خداوند تبارک و تعالی پر بھروسہ رکھتے ہوئے جو تمام کامیابیوں کا سر چشمہ ہے، آگے بڑھیں اور تمام اسلامی ممالک متحد ہو کر پرچم اسلام کے زیر سایہ خوشحالی اور عزت کی زندگی بسر کریں۔
امام خمینی کی تمام تر توجہ وحدت و اتحاد پر رہی ہے۔ عالم اسلام کا اصل مرض یہی ہے جب بھی امام قدس سرہ اتحاد و وحدت پر جو اس کا واقعی علاج ہے اس قدر زور دیتے ہیں اور اس میں بے انتہا زحمتیں برداشت کرتے ہیں اگرچہ ہوتا یہ ہےکہ جب انسان کو اپنی زندگی میں ایک کامیابی حاصل ہوتی ہے تو درحقیقت وہ ایک طرح کا آرام و سکون محسوس کرتا ہے لیکن چونکہ حضرت امام خمینی قدس سرہ کا مقصد صرف ایرانی مسلمانوں کی کامیابی تک محدود نہ تھا لہذا اس کامیابی کے با وجود پوری دنیا کے مسلمانوں کو متحدہ کرنے کے سلسلہ میں اپنی مجاہدانہ کوششیں جاری رکھتے ہیں۔
علامہ اقبال نے بھی امام خمینی قدس سرہ کی مانند حصول اتحاد کی مختلف راہیں بیان کی ہیں ان کا خیال تھا کہ قوت طاقت اور عظمت و شوکت کے بغیر اسلام کا تصور نہیں ہے۔ علامہ اقبال کہتے تھےکہ مسلمان کو قوی اور کامیاب ہونا چاہیئے اس کے اندر کمزوری کا احساس نہیں پیدا ہونا چاہیئے۔
امام خمینی کی خصوصیات میں سے ایک اہم چیز آپ کا تقدس اور پاکیزہ نفس تھا، گویا خود امام طاب ثراہ ابتدائے زندگی میں اس بات کی طرف متوجہ تھےکہ خداوند عالم نے آپ کو ایک عظیم کام کےلئے خلق کیا ہے۔
امام خمینی کی پاکیزگی اس منزل پر نظر آتی ہےکہ حتی کہ آپ کے سخت ترین دشمن بھی آپ کے یہاں کوئی معمول سا ضعیف پہلو پیدا کرنے سے قاصر رہے ہیں جس وقت پہلوی حکومت نے آپ کے خلاف افواہ پھیلانا چاہی کہ اس طرح آپ کی شْخصیت کو کسی طرح سے مجروح کیا جا سکے تو سب سے بڑی بات جو وہ کہہ سکے یہ تھی کہ آپ ہندی الاصل اور ہندوستان سے ایران آئے ہیں!!
امام خمینی کی دوسری خصوصیات ان کی روحانیت تھی۔ وہ ریاضت و مجاہدت وہ توجہ اور دل سوزی وہ خاص روحانی کیفیات جن کے آپ کے حامل تھے ہر دیکھنے والے بلکہ جو بھی آپ کے درس میں حاضر ہوتا تھا اس کو اپنی طرف جذب کر لیتے تھے۔
امام خمینی کی ایک اور خصوصیت انسانوں کے دلوں کی گہرائیوں میں اتر جانا اور عوام کا آپ کی بے دریغ حمایت کرنا تھی۔ یقنین کے ساتھ کہا جا سکتا ہےکہ پیغمبران خدا، آئمہ معصومین اور صدر اسلام کی عظیم شخصیتوں کے بعد قلوب میں گھر کر جانے کی یہ کیفیت کسی عالم اور روحانی شخصیت میں نظر نہیں آتی۔
حضرت امام خمینی کی ایک اور خصوصیت جو آپ کی کامیابی میں بہت زیادہ موثر ثابت ہوئی آپ کا مرجع تقلید ہونا تھا۔ یہ امر سبب بنا کہ افراد آپ کے افکار قبول کرنے پر دل و جان سے آمادہ ہوئے اور وہ خود کو اس بات کا ذمہ دار سمجھتے تھےکہ ان کی تبلیغ و ترویج کریں اور زندگی کے آخری لمحات تک ان کا دفاع کریں۔
ایک اور امتیاز جس کی طرف اشارہ کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے، امام خمینی کے ترقی یافتہ اور انوکھے افکار تھے۔ آپ کے نظریات کچھ ایسے تھےکہ تمام پڑھے لکھے افراد، طلبہ اور اساتذہ، ملازم اور مزدور، کسان اور تاجر حتی کہ ان پڑھ افراد بھی اپنے تمام کے تمام تقاضے امام خمینی کے افکار میں مشاہدہ کرتے تھے۔ اسلام کی بلند افکار جن کو امام خمینی نے اپنے مخصوص انداز میں پیش کیا لوگوں کے اندر بیداری و آگاہی اور بھولے سبق دوبارہ یاد آنے کا سبب بنے اور ملت ایران اس انقلاب کے گرد جمع ہو گئی۔
حضرت امام خمینی کی دیگر خصوصیات میں سے ایک وہ طریقہ کار بھی تھا جو دراصل وہی انبیاء علیہم السلام کا انداز و شیوہ تھا یعنی اس تحریک کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کےلئے آپ نے کوئی حزب اور جماعت تشکیل نہیں دی کہ کچھ مخصوص افراد تحریک کے اصل محور اور اراکین کے طور پر سامنے آجائیں اور پھر کامیابی کے بعد حکومت اپنے ہاتھ میں لے لیں اور دوسرے ان کے مطیع و فرمان بردار بن جائیں۔
امام خمینی قدس سرہ نے انبیاء علیہم السلام کی سیدھی سادی سیرت کا انتخاب کیا اور ایک عالم دین کے عنوان سے لوگوں کو اسلامی مسائل سے آشنا و باخبر کر دیا اور خود کو ہر طرح پارٹی و جماعت کی تشکیل سے دور رکھا۔ امام خمینی کا یہ سادہ اور صاف ستھرا برتاو اس انقلاب کی کامیابی میں بہت موثر اور قابل توجہ کردار ادا کیا۔ ان میں سے ایک امام کی خصوصیت یہ بھی تھی کہ آپ نے عالی دماغ مفکرین اور علماء پر مشتمل اپنے شاگردوں کے ایک وسیع گروہ کی بڑی ہی اعلی سطح پر تربیت کی تھی جنہوں نے دقیق طور پر امام کی باتوں کو سمجھا اور آپ کی زندگی کے دوران آپ کے قوی و مستحکم بازو بنے رہے۔
تحریر: سیدہ کنیز زہرا شاہ
ماخذ: http://www.geourdu.com/ تلخیص کے ساتھ