فلسطینی مسئلے پر امام خمینی (ره) کے موقف

فلسطینی مسئلے پر امام خمینی (ره) کے موقف

فلسطین اب صرف دوحصوں میں بچ گیا ہے ایک حصے کا نام غزہ پٹی اور دوسرے حصے کا نام مغربی کنارہ ہے

بت شکن ،مرد قلندر،امید مستضعفین جہاں امام خمینی (ره)  نے اسرائیل کی ناجائز ریاست ،اس کی خیانتوں اور مظلوم فلسطینیوں کی پکار ،آہ و بکا سنتے ہوئے اس مسئلہ کو خوب اجاگر کیا اور اپنے خطابات،اقوال و فرامین نیز پیغامات کے ذریعے اسرائیل کے ناجائز وجود بارے کھل کر گفتگو کی ،رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو یوم القدس قرار دیا،اور پوری دنیا میں اس روز مظلوم فلسطینیوں کے حق میں آواز بلند کرنے اور گھروں سے باہر نکلنے کا حکم صادر فرمایا۔ یوم القدس کے بارے میں امام خمینی(ره) کا کہنا تھا کہ یہ ایسا دن نہیں کہ جو فقط قدس کے ساتھ مخصوص ہو، بلکہ مستکبرین کے ساتھ مستضعفین کے مقابلے کا دن ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ منافقین اور وہ لوگ جن کی پس پردہ بڑی طاقتوں کے ساتھ آشنائی اور اسرائیل کے ساتھ دوستی ہے، وہ یوم القدس سے لاتعلق رہتے ہیں یا قوموں کو مظاہرہ نہیں کرتے دیتے۔

بدقسمتی سے فلسطین اب صرف دوحصوں میں بچ گیا ہے ایک حصے کا نام غزہ پٹی اور دوسرے حصے کا نام مغربی کنارہ ہے جس میں بیت المقدس واقع ہے۔ قبلہ اول جس شہر میں واقع ہے اُسےصدیوں پہلے عبرانی زبان میں بیت ہمقدش کہا جاتا تھا جو عربی زبان میں بیت المقدس بنا اور یورپی زبان میں اِسے یروشلم کہتے ہیں۔ بیت المقدس یہودیوں، عیسائیوں اور مسلمانوں کیلئے بہت ہی مقدس اور لائق تکریم مقام ہے۔ یہودیوں کیلئے اِس لئے مقدس ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کا تعمیر کردہ معبد یہیں پر موجود ہے، جو بنی اسرائیل کے انبیاء کا قبلہ تھا اور اِسی شہر سے یہودیوں کی تاریخ اور ابتداء بھی وابستہ ہے۔ ہیکل سلیمانی اُس خیمہ نما عمارت کو کہتے ہیں جہاں یہودی حضرت موسٰی علیہ السلام اور حضرت ہارون علیہ السلام کے مقدس تبرکات والا تابوت ِسکینہ رکھا کرتے تھے۔ ہیکل سلیمانی بیت المقدس پر قبضے کی مختلف جنگوں میں تباہ و مسمار کر دیا گیا اور اب اُس کی صرف ایک دیوار باقی ہے، جسے دیوارِگریہ کہا جاتا ہے اور اِن جنگوں میں تابوتِ سکینہ بھی چوری کر لیا گیا، جس کا لاکھ جتن کرنے کے باوجود کہیں نام و نشان اور سراغ نہیں ملا۔ یہ وہ تابوت ِسکینہ ہے جس کو یہودی ہرجنگ میں آگے آگے لے کر چلتے تھے اور اس کی برکت اور فیض سے فتح حاصل کیا کرتے تھے۔ یہودیوں کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی تمام دُنیا کے مقابلے میں یہاں پر موجودگی زیادہ ثابت ہوتی ہے اور دوسرا یہ وہی جگہ ہے، جہاں پر اللہ تعالی نے زمین کی پرت کی ہر قسمی مٹی کو اکٹھا کر کے آدم علیہ السلام کو تخلیق کیا تھا۔ یہودیوں کی تاریخ اور تورات کے مطابق سب سے پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور اُن کے بھتیجے حضرت لوط علیہ السلام نے عراق سے بیت المقدس کی طرف ہجرت کی تھی۔ مسجد اقصی کی بنیاد حضرت یعقوب علیہ السلام نے ڈالی اور پھر یہ شہر آباد ہوا۔ کافی عرصہ گزر جانے کے بعد حضرت سلیمان علیہ السلام نے مسجد اور شہر کی دوبارہ تجدید کرائی۔ حضرت عزیر علیہ السلام کا بھی اِسی مقدس شہر سے گزر ہوا تھا اور آپ نے شہر کو برباد اور کھنڈرات میں دیکھ کر تعجب کا اظہار کیا تھا کہ یہ ویران اور برباد شہر کیسے آباد ہوگا؟ اِسی تعجب اور حیرانگی پر اللہ تعالی نے آپ کو سوسال کیلئے موت دے دی تھی اور جب آپ دوبارہ اُٹھائے گئے تو یہ شہر پھر آباد اور پررونق بن چکا تھا۔ عیسائیوں کیلئے یہ شہر اِس لئے مقدس ہے کہ یہاں حضرت عیسی علیہ السلام کی پیدائش گاہ، اُن کی تبلیغ کا مرکز اور وہ چرچ یہیں پر واقع ہے، جہاں آپ (ع) کو پھانسی دی گئی تھی (اُن کے بقول)۔ مسلمانوں کیلئے یہ شہر اِس لئے وجہ ءِ تکریم وتحریم ہے کہ پہلے پہل مسلمان اِسی قبلہ اوّل کی طرف رُخ کرکے نماز ادا کرتے رہے۔ دوسرامسجد اقصی وہ عظیم تاریخی اور مقدس مسجد اور قبلہ اول ہے، جہاں پر رسول پاک (ص) نے شب معراج تمام انبیا و مرسلین(ع) کو باجماعت نماز پڑھائی تھی۔ مکہ مکرمہ سے بیت المقدس کا زمینی فاصلہ تقریباً تیرہ سو کلومیٹر بنتا ہے اور اِسی دُوری کی وجہ ہے کہ قران کریم میں جب معراج النبی (ص) کا ذکر ہوا تو اِسے مسجدِ اقصٰی (بہت دُورمسجد) کہا گیا۔ یہاں پرایک اور مسجد قبتہ الصخرہ بھی ہے، جو سنہرے گنبد والی مسجد ہے اور اکثر مسلمان اسی کو قبلہ اول سمجھتے ہیں، حالانکہ یہ مسجد اُموی دور میں اُس چٹان پر بنائی گئی تھی، جہاں سے رسول پاک ؐبراق پر سوار ہو کر حضرت جبرائیل علیہ السلام کے ہمراہ عازم معراج ہوئے تھے۔

فلسطین 1948 ء تک بس فلسطین تھا، لیکن اسرائیلی ریاست کے بزور طاقت قیام کے بعد فلسطین اب تین حصوں اسرائیل، مغربی کنارے اور غزہ پٹی میں تقسیم ہو چکا ہے۔ شروع شروع میں یہودی بیت المقدس میں روحانی سفر یا زیارت کا بہانہ بنا کر آتے رہے اور وہیں پر رہائش پذیر ہوتے گئے اور مسلمان بے خبر غفلت کی نیند سوتے رہے، لیکن پہلی جنگ عظیم کے بعد فلسطین پر برطانیہ کا قبضہ ہوگیا اور یہ قبضہ ۱۹۱۷ ءسے ۱۹۴۸ء تک برقرا رہا۔ اِسی دوران یہودیوں کو فلسطین میں آبادکاری کی اجازت دے دی گئی۔ پہلی جنگ عظیم کے وقت فلسطین میں صرف تین فیصد یہودی آباد تھے۔ اب اسرائیل 20,770 مربع کلومیٹر رقبے پر مشتمل ہے۔ پچاسی لاکھ پر مشتمل آبادی والے ملک اسرائیل کے پاس زرمبادلہ کے 272 ارب ڈالر کے ذخائر ہیں۔

اسرائیل کے خلاف سخت جدوجہد کرنے اور اصولی مواقف اختیار کرنے کا لازمہ یہ ہے کہ لوگ علم وآگہی رکھنے کے ساتھ ساتھ، بیماری اور مہلک بخار میں  مبتلا نہ ہوں  اور اپنے لیڈروں  پر اس قدر اعتماد رکھتے ہوں  کہ ان کا ساتھ دیں ۔ لیکن اسلامی ممالک پر جبر واستبداد اور گھٹن کی حکمرانی اس حد تک (بڑھ گئی) تھی کہ عوام حکومتوں  کے پشت پناہ نہیں  تھے۔

اس پوزیشن کو درک کرلینے کے بعد ہی امام خمینی  (ره) نے قوموں  کے اسلامی ایمان کو مقاومت وپائیداری کی اصلی تکیہ گاہ قرار دیتے ہوئے فرمایا ہے:

’’ہم جب تک رسول اﷲ (ص)  کے اسلام کو نہ اپنالیں ، ہماری مشکلات، اپنی جگہ پر باقی رہیں گی۔ نہ مسئلہ فلسطین کو حل کر پائیں گے اور نہ ہی مسئلہ افغانستان اور دوسرے مسائل کو لوگوں  کو اوائل اسلام کی طرف پلٹ جانا چاہیے، اگر حکومتیں  بھی ان کے ساتھ پلٹ گئیں  تو کوئی مشکل نہیں  رہے گی۔ لیکن اگر حکومتیں  نہ پلٹیں  تو عوام کو چاہیے کہ اپنا حساب حکومتوں  سے الگ کرلیں  اور حکومتوں  کے ساتھ وہی سلوک کریں  جو ملت ایران نے اپنی حکومت کے ساتھ کیا ہے تاکہ مشکلات دور ہوجائیں ‘‘۔(صحیفہ امام، ج ۱۳، ص ۸۹)

امام خمینی  (ره) ہمیشہ یہ کہتے رہے ہیں  کہ فلسطین کی نجات اور صیہونزم کے توسیع پسندانہ عزائم کے آگے بند باندھنے کا واحد راستہ مسلمانوں  کی اسلام کی طرف بازگشت اور ان کا آپس میں  اتحاد ہے اور انہوں  نے اس چیز پر زور دینے کے ساتھ ساتھ فرمایا ہے کہ ’’اسرائیل کا اصلی مقصد اسلام کو نابود کرنا ہے‘‘ ہمیشہ اس چیز کی بھی تاکید کی ہے کہ ہر طرح کے اختلافات منجملہ مذہبی اختلافات کو ختم کردیا جائے۔

اگرچہ فلسطین میں  رہائش پذیر اکثر مسلمانوں  اور عربوں  کا تعلق اہل سنت سے تھا۔ لیکن امام خمینی  (ره) نے شیعوں  کے ایک فقیہ اور مرجع تقلید کی حیثیت سے ان کی کسی طرح کی حمایت سے بھی دریغ نہیں  کیا۔ وہ مسئلہ فلسطین کو اسلام کی حیثیت سے مربوط سمجھتے تھے اور اسی وجہ سے وہ ہمیشہ تمام مسلمانوں  خاص کر لبنان کے شیعوں  کو فلسطینیوں  کی مدد پر ابھارتے تھے اور اس بات پر زور دیتے تھے کہ فلسطین کی مشکل دنیائے اسلام کی مشکل ہے۔ امام خمینی  ؒ مٹھی بھر صیہونیوں  کی ایک ارب سے زیادہ مسلمانوں  پر حکمفرمائی کو ننگ وعار سمجھتے تھے اور کہا کرتے تھے:

’’وہ ممالک جن کے پاس سب کچھ ہے اور ہر طرح کی قدرت سے سرشار ہیں  ان پر چند اسرائیلی کیوں  حکمرانی کریں ؟ ایسا آخر کیوں  ہے؟ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ قومیں  ایک دوسرے سے علیحدہ ہیں ۔ عوام اور حکومتوں  میں  جدائی ہے اور حکومتیں  آپس میں  متحد نہیں  ہیں ۔ ایک ارب مسلمان باوجودیکہ ہر طرح کے وسائل سے لیس ہیں  لیکن پھر بھی اسرائیل، لبنان اور فلسطین پر ظلم کررہا ہے‘‘۔(  صحیفہ امام، ج ۱۰، ص ۴۱۷)

امام خمینی  (ره) کے بیدار کن پیغامات کے وجہ سے ہی امریکہ، یورپ اور اسرائیل نے گزشتہ چند برسوں  میں  امام خمینی  (ره) کی روش اور نظام جمہوری اسلامی سے مقابلہ کرنے میں  اپنی ساری توانائی لگا رکھی ہے اور اسلامی ممالک میں  بعض عوام دشمن حکومتوں  کی انحصار پسندانہ پالیسیوں  اور ان کی ڈانواں  ڈول پوزیشن سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کوشش کررہے ہیں  تاکہ خالص اسلام محمدی  (ص) کو احیاء کرنے والے پیغام کو عام نہ ہونے دیں  اور طرح طرح کے طریقے استعمال کرتے ہوئے، جن میں  اہداف انقلاب اسلامی خلاف غلط پروپیگنڈے سے لے کر ناروا تہمتوں ، قتل وغارت اور عالمی دباؤ اور اسرائیل وامریکہ کے خلاف مردہ باد نعرے لگانے کے جرم میں  حاجیوں  کے قتل عام تک شامل ہیں ، وہ لوگ اس کوشش میں  لگے ہوئے ہیں  کہ کسی طرح انقلاب اسلامی کی موجوں  کے سامنے بند باندھ دیں  اور اسرائیل کی غاصب حکومت کو دنیائے اسلام کے قلب میں  مضبوط بنا دیں ، لیکن فلسطینی عوام کا قیام، اس حقیقت کی علامت ہے کہ امام خمینی  (ره) اور ان کی الٰہی تحریک کا پیغام، اپنے اصلی مخاطبوں  تک پہنچ چکا ہے۔

ای میل کریں