نکولے ملاد ینوف: مقبوضہ بیت المقدس میں اقوام متحدہ کا سٹاف اس علاقے، اس کے لوگوں اور مذاہب کی تاریخ سے اچھی طرح آگاہ ہے۔
واشنگٹن (جیوڈیسک) امریکا میں ری پبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ نے نیا شوشہ چھوڑتے ہوئے کہا ہےکہ اگر وہ ملک کے صدر بنے تو اسرائیل میں قائم امریکی سفارتخانہ، تل ابیب سے مقبوضہ "بیت المقدس" منتقل کر دیں گے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے ان خیالات کا اظہار " ایپک " کی سالانہ کانفرنس سے خطاب میں کیا۔ انھوں نے کہا کہ فلسطینیوں کو اسرائیل کے خلاف دہشت گرد کارروائیاں بند کرنا ہوں گی!!
یہودی لابی کے نام اپنے پیغام میں ہلیری کلنٹن کا کہنا تھا کہ اسرائیلی ریاست کےلیے وہ اوباما سے بڑھ کر اقدامات کریں گی!!
واضح رہےکہ ڈونلڈ ٹرمپ اس سے قبل بھی متعدد بار مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز بیانات دے چکے ہیں۔
ادھر نتین یاہو نے جمعہ کے روز اقوام متحدہ کی ثقافتی ادارے کی جانب سے قبلہ اول مسجد اقصیٰ میں مسلمانوں کے خلاف اسرائیلی جارحیت کی مذمت کئے جانے پر یہودیوں کی تاریخ پر ایک لیکچر کی میزبانی کی پیشکش کی۔
نتین یاہو نے یونیسکو کے ایگزیکٹو بورڈ کی قرار داد سے متعلق کہا کہ یہ قرار داد ٹیمپل ماﺅنٹ سے یہودیوں کے تعلق کی نفی کرتی ہے۔
واضح رہےکہ [صہیونی] یہودی سمجھتے ہیں کہ مسجد اقصیٰ کی تعمیر سے قبل اسی جگہ پر یہودیوں کی عبادت گاہ ٹیمپل ماﺅنٹ موجود تھا۔
مشرق وسطیٰ امن عمل کےلئے اقوام متحدہ کے خصوصی کوآرڈنیٹر نکولے ملاد ینوف نے یو این سٹاف کی کم آگاہی کے دعوے کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کہا: اگر کوئی دعوت دینا چاہتا ہے تو دعوت پیرس کےلئے ہونی چاہئے اور اقوام متحدہ کے رکن ممالک کے سفیروں کے نام پر ہونی چاہئے۔ انہوں نے کہا: مقبوضہ بیت المقدس میں اقوام متحدہ کا سٹاف اس علاقے، اس کے لوگوں اور مذاہب کی تاریخ سے اچھی طرح آگاہ ہے۔
خیال رہےکہ اسرائیل نے 1967ء میں "القدس" میں موجود مسلمانوں کے تیسرے مقدس ترین مقام مسجد اقصیٰ پر قبضہ کر لیا تھا اور یہ مسجد مسلمانوں اور اسرائیل کے درمیان تنازع کا مرکزی نکتہ ہے۔ اسرائیل کی جانب سے مسجد اقصیٰ میں مسلمانوں کو عبادت اور یہودیوں کو دورہ کرنے کی اجازت پر مشتمل حالیہ ضوابط کو تبدیل کرنے کے خدشات پائے جاتے ہیں۔
یہودی آباد کار مسجد اقصیٰ میں داخل ہو کر صہیونی فورسز کی نگرانی میں اپنی تلمودی رسومات ادا کر کے مسلمانوں کے مذہبی جذبات مجروح کرتے رہتے ہیں۔
منادی عالمی یوم قدس، امام خمینی رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں:
ہم جب تک اسلام کی طرف نہیں لوٹیں گے، جب تک رسول ﷲ ﷺ کے اسلام کی طرف نہیں لوٹیں گے، ہماری مشکلات حل نہیں ہوں گی۔ ہم نہ فلسطین کا مسئلہ حل کرسکتے ہیں، نہ افغانستان کا اور نہ ہی کسی اور مقام کا۔