عورت اور معاشرہ

عورت اور معاشرہ

امام خمینی (ره)نے عورت کو معاشرہ کا مربی قرار دیا ہے

حضرت امام خمینی  (ره)کی نظر میں  عورت معاشرے کا ایک مؤثر حصہ ہے اور معاشرے کا آدھا حصہ ہے جو کہ دوسرے آدھے حصے پر کافی حد تک اثر انداز ہے،اس کی اصلاح اورخرابی براہ راست معاشرے پر اثر انداز ہوتی ہے، امام خمینی  (ره) اس ایک گروہ کے برخلاف کہ جو اس بات کا قائل ہے کہ مذہب شیعہ عورت کو خانہ نشینی اور سماجی امور میں حصہ نہ لینے کا حکم دیتا ہے، فرماتے ہیں :

’’مذہب تشیع نہ یہ کہ انھیں  معاشرتی زندگی کے میدان سے دور نہیں  کرتاہے بلکہ انھیں  معاشرے میں  ایک بلند انسانی مرتبہ عطا کرتا ہے، ہم مغربی دنیا کی ترقیات کو قبول کرتے ہیں  لیکن ان کی برائیوں  کو اختیار نہیں  کریں گے جن کے درد سے وہ خود بھی کہرا رہے ہیں ‘‘۔(  صحیفہ امام؛ ج ۴، ص ۵۰۸)

امام خمینی (ره)نے عورت کو معاشرہ کا مربی قرار دیا ہے اور ضرورت پڑنے پر سماجی میدان میں  اس کے حصہ لینے کی تاکید کرتے ہیں ، قابل توجہ بات یہ ہے کہ امام خمینی  (ره)ایک جگہ پرصوبائی اور مرکزی  اداروں  کے مسئلہ کے سلسلہ میں  سماجی امورمیں  عورتوں  کی شرکت کی ممانعت کرتے ہیں، لیکن اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد مختلف تحریکوں  میں  شرکت کرنے کو عورت کی آزادی اور خود مختاری کیلئے واجب سمجھتے ہیں  ،اس سے واضح ہوتا ہے کہ کل عورت کا  حصہ لینا شریعت اسلام کے لحاظ سے منافی تھا ایسی شریعت کہ جس کی بنیاد اخلاقی اور انسانی اصولوں پر استوار ہے، لہٰذا آپ ممانعت فرماتے تھے ۔ جیساکہ فرماتے ہیں  :

’’اسلام کی نظر میں  عورتیں  اسلامی معاشرے کی بنیادرکھنے میں  حساس کردار رکھتی ہیں  ،اسلام عورت کو اس حد تک ترقی دینا چاہتا ہے کہ جس کی بنا پروہ معاشرے  میں  اپنا انسانی مقام ومرتبہ حاصل کر سکے اورایک شئے ہونے کی حد سے باہر آئے، اس طرح کا متناسب رشد حاصل کرنے کے بعد ہی وہ اسلامی حکومت کی تعمیر نو میں  ذمہ داریاں  اٹھا سکتی ہے‘‘۔(صحیفہ امام، ج ۴، ص ۴۳۶)

امام خمینی  (ره) معاشرہ میں  خواتین کے حصہ لینے کی نصیحت کے ضمن  میں  فرماتے ہیں :

’’ خواتین کو آج اپنے معاشرتی اوردینی فرائض پرعمل کرنا چاہیئے، البتہ اپنی  عفت کو محفوظ رکھتے ہوئے اوراس عفت کے ساتھ اپنے معاشرتی اور سیاسی کاموں  کو انجام دیں ‘‘۔(صحیفہ امام ؛ ج ۱۳، ص ۱۹۳)

جیسا کہ امام خمینی  (ره)کے مذکورہ بیان میں  عفت کی طرف اشا رہ ہو اہے، جس کو امام خمینی بہت اہمیت دیتے تھے آپ نے اس بات کی تاکید کرتے ہوئے کہ عورت کو تمام میدانوں  میں  آزاد ہونا چاہیئے، اسلام کی اجازت کواس آزادی کے حدود قرار دیا ہے۔

آپ مغربی شکل میں مطلق آزادی کے قائل نہیں  تھے کہ جس سے آدمی نفسیاتی وانسانی کمالات سے دور ہو جاتا ہے جبکہ یہی چیزیں  اسلام میں  ترقی کا معیارہیں ، ان کی نظر میں  آزادی شریعت اسلامیہ کے قوانین کے دائرہ میں  ہے ۔

آپ فرماتے ہیں :

’’آپ لوگوں  کو ہر میدان اور ہر شعبہ میں  جتنی اسلام نے اجازت دی ہے، وارد ہونا چاہیئے۔۔۔ ایران کی تقدیر سب کی تقدیر ہے ‘‘۔(صحیفہ امام؛ ج ۱۸،ص ۴۰۳)

ای میل کریں