الف) اسلامی تعلیمات اور اصولوں کی پابندی
امام خمینی (ره) نے اپنے عمل اور گفتار کے ذریعے حکومتی اسلام کی پہلی خصوصیت کو اپنے پاؤں تلے روند ڈالا۔ آپ نے حکومت کو کبھی اصل نہیں سمجھا بلکہ اسلام کی تعلیمات اور اقدار کو بنیاد قرار دیا اور ان اقدار تک پہنچنے کا ذریعہ قرار دیا۔امام خمینی (ره) کی نظرمیں اسلامی حکمران گرچہ شریعت کے احکام اولیہ پر حاکم ہیں لیکن خاص موقعوں پر عارضی طورپر حکم اولیہ سے صرف نظر کرسکتا ہیں لیکن ان کو اسلامی اقدار اور اصولوں کو منسوخ کرنے کی ہرگز اجازت نہیں ہے کیونکہ حکومت معاشرے میں عدالت قائم کرنے کا وسیلہ ہے اور حکومت کی بقا کی خاطر ایک لمحہ کیلئے عدالت سے چشم پوشی نہیں کی جاسکتی۔ کیونکہ حکومت کے قیام سے مقصود عدل وانصاف کی برقراری ہی ہے۔
امام خمینی (ره) فرماتے ہیں : ’’حکومت حاصل کرنا فی نفسہ کوئی مقام ومنزلت نہیں ہے بلکہ حکومت فرائض کی انجام دہی، احکام الٰہی کے نفاذ اور اسلام کے عادلانہ نظام کو قائم کرنے کا وسیلہ اور ذریعہ ہے‘‘۔(روزنامہ جمہوری اسلامی، ۹؍۱؍۷۵)
امام خمینی (ره)سیاستدانوں اور حکام کے درمیان رائج اسلامی اصولوں سے تضاد رکھنے والی ڈپلومیٹک اور سیاسی مصلحتوں کو ترجیح نہیں دیتے تھے۔ سلمان رشدی مرتد کے قتل کا فتویٰ اور سابق سوویت یونین کے آخری صدر گورباچف کے نام آپ کا خط رائج سیاسی مفادات کی مکمل مخالفت کی دو واضح مثالیں ہیں امام خمینی (ره) نے ایک لمحے کیلئے بھی اسلامی اصولوں سے روگردانی نہیں کی ہے اس لئے آپ یہاں بھی روگردانی نہیں کرتے ہیں ۔
ب) اسلامی حکومت ایک آئینی حکومت ہے ڈکٹیٹرشپ نہیں
امام خمینی (ره) اس سلسلے میں فرماتے ہیں : ’’اسلامی حکومت نہ استبدادی ہے نہ اس میں ڈکٹیٹرشپ کا کوئی تصور ہے بلکہ یہ آئینی حکومت ہے۔ البتہ آئینی سے مراد رائج معنوں والی آئینی حکومت نہیں کہ جس میں اس وقت رائج طریقے کی طرح قوانین اکثریت کے ووٹوں کی بنیاد پر وضع کئے جاتے ہوں، بلکہ اس کے آئینی ہونے کے معنی یہ ہیں کہ حکام ملک کا انتظام چلانے کے سلسلے میں ان شرائط کے پابند ہیں جو کتاب وسنت میں بیان کی گئی ہیں اور یہ شرائط اسلام کے احکام وقوانین ہی ہیں جن کی مراعات اور نفاذ ضروری ہے۔ اس اعتبار سے اسلامی حکومت لوگوں پر قانون الٰہی کی حکومت ہے‘‘۔(روزنامہ جمہوری اسلامی، ۹؍۱؍۷۵۵)
ج) اسلامی حکومت قانون کی حکومت ہے
’’اسلامی حکومت قانون کی حکومت ہے۔ اس طرز حکومت میں حاکمیت صرف خدا تعالیٰ کو حاصل ہے۔ اسلام کے قانون اور خدا تعالیٰ کے فرمان کو تمام افراد اور اسلامی حکومت پر بالادستی حاصل ہوتی ہے۔ رسول اکرم (ص) سے لے کر آپ کے خلفاء تک کے افراد اور ابد تک کے تمام افراد قانون کے تابع ہیں ‘‘۔(روزنامہ جمہوری اسلامی، ۹؍۱؍۷۵)
ان تمام استبدادی حکومتوں کے برخلاف کہ جن میں ایک فرد کے فیصلے کو بالادستی حاصل ہوتی ہے اور اس کا کہا ہی قانون ہوتا ہے اور خود اس کے علاوہ ہر ایک پر قانون کی پابندی ضروری ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض اسلامی مفکّرین نے اسلامی حکومت کو ’’ولایت فقیہ‘‘ کے طورپر پیش کیا ہے، یعنی اسلامی حکومت میں درحقیقت اسلامی فقہ اور قانون کی حکمرانی ہوتی ہے نہ کہ فقیہ یا رہبر کی ذات کی۔ حقیقت یہ ہے کہ حکم اور فتوے کی اطاعت سب سے پہلے خود والی اور فقیہ کو کرنا ہوتی ہے بعد میں دوسرے لوگوں کو‘‘۔(رہبری در اسلام وولایت فقیہ، جوادی آملی)
امام خمینی (ره) حکومتی اسلام کے بارے میں پائے جانے والے خدشات برطرف کرنے کے سلسلے میں فرماتے ہیں : ’’آپ لوگ ولایت فقیہ سے خوف مت کھائیں ۔ فقیہ لوگوں سے منہ زوری نہیں کرتا ہے۔ اگر کوئی فقیہ منہ زوری سے کام لے تو اس فقیہ کی ولایت ہی ختم ہوجاتی ہے۔ اسلام ہے، اسلام میں قانون کی حکومت ہوتی ہے۔ پیغمبر اکرم ؐ بھی قانون کے پابند تھے‘‘۔(روزنامہ جمہوری اسلامی، ۹؍۱؍۷۵۵)
د) {النصیحۃ لأئمۃ المسلمین} امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے اصول کا احیاء
حکومتی اسلام میں لوگوں کو حکام کی کسی طرح کی مخالفت کا حق حاصل نہیں ہے۔ قضا وقدر اور جبر واختیار جیسے طرح طرح کے من گھڑت فلسفے اور جواز پیش کرنے کے حربوں کے ذریعے مخالفت اور نصیحت کے جذبے کو حتی کہ لوگوں کے اذہان تک سے ختم کردیا گیا اور بادشاہ کو خدا کا سایہ، پائیدار اور معصوم بنا کر پیش کیا گیا حتی کہ اگر وہ غیر معصوم بھی ہو تو یہ تأثر قائم کیا گیا کہ قضا وقدر الٰہی یہی ہے کہ ہم اس کی سلطنت کے سائے میں زندگی بسر کریں ، وغیرہ وغیرہ۔
اسلامی حکومت کی ماہیت ہی دینی فکر کے احیاء کی متقاضی ہے۔ بادشاہوں کی حکومتوں کے دوران فراموش کئے جانے والے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا دوبارہ احیاء ہوا اور لوگوں پر والی کے حق کے طورپر نصیحت ائمہ مسلمین کا مسئلہ اٹھا۔ خدا کا سایہ ہونا کہاں اور حضرت امام خمینی (ره) کا یہ فرمان کہاں : ’’خدا جانتا ہے کہ میں ذاتی طورپر اپنے لئے کسی طرح کے تحفظ اور امتیازی حق وحیثیت کا قائل نہیں ہوں اور اگر مجھ سے کوئی غلطی ہوجائے تو اس کی جوابدہی کیلئے تیار ہوں ‘‘۔(منشور روحانیت، امام خمینی(ره))
اسلامی حکومت میں لوگوں کو عمومی نگرانی کا حق بھی حاصل ہوتا ہے اور خصوصی نگرانی کا بھی۔ پہلا زبان، قلم کے ذریعے سے اور یہ تمام افراد کو حق حاصل ہے اور دوسرا ماہرین کونسل اور پارلیمنٹ کیلئے اپنے نمائندے منتخب کر کے تاکہ ان کے یہ نمائندے اسلامی حکام، یعنی ولی فقیہ اور دیگر حکام کے کاموں کی نگرانی کریں ۔ قانون نے ان اراکین کو یہ حق دیا ہے کہ وہ ملک کے اندرونی اور بیرونی تمام مسائل پر اظہار خیال کرسکتے ہیں ‘‘(آئین شق نمبر ؍ ۸۳۳)
ھ) لوگوں کا حق رائے دہی
ڈکٹیٹر حکومتوں اور حکومتی اسلام کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس میں لوگوں کو رائے دہی اور اپنی تقدیر کا فیصلہ کرنے کا حق حاصل نہیں ہوتا ہے۔ جبکہ اسلامی حکومت میں اگرچہ نظام کو جواز خدا تعالیٰ کی جانب سے عطا ہوتا ہے عوام کی رائے کے ذریعے نہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ لوگوں کو بھی بہت سا کردار دیا گیا ہے۔ مثلاً، بیعت کے ذریعے قائد کا انتخاب، نوع حکومت کا انتخاب، صدر مملکت اور اراکین پارلیمنٹ کا انتخاب وغیرہ۔ امام خمینی (ره)اس سلسلے میں فرماتے ہیں : ’’مطلوبہ اسلامی جمہوریہ حکومت پیغمبر اکرم (ص) اور امام علی (ع) کی سیرت کے سانچے میں ڈھالی جائے گی اور ملت کے ووٹوں پر استوار ہوگی اور نوع حکومت کا تعین بھی عوام کے ووٹوں سے کیا جائے گا۔
اسلامی جمہوریہ کی حکومت کی ماہیت یہ ہے کہ اسلام نے حکومت کیلئے جو شرائط قرار دی ہیں ان کی بنیاد پر اور ملت کے ووٹوں کے پیش نظر حکومت تشکیل دی جائے اور یہ حکومت اسلام کے احکام کا نفاذ کرے‘‘(جمہوری اسلامی، ۹؍۱؍۷۵)