امام خمینی(رح) کے مکتب فکر کا نقطہ نظر

امام خمینی(رح) کے مکتب فکر کا نقطہ نظر

علمائے اسلام کی ہدایت ونظارت میں عوامی حاکمیت

امام خمینی(رح) کے مکتب فکر کو واضح کرنے سے پہلے، موجودہ صدی کے اسلامی تحریکوں کا مختصر جائزہ لینا چاہئے اس کے بعد آپ(رہ) کے کردار وافکار سے بهی بسہولت آشنا ہوں گے۔ اس لئے کہ مختلف مکاتب فکر اور ان کے طرز عمل گوناگون انداز میں اسلام کی طرف رخ کرتے یا منہ پهیر لیتے تهے۔

آغاز کلام کیلئے ہم تین بنیادی اصولوں کی شناخت کیلئے تین مکاتب فکر پر مبنی حکمت عملی کی طرف توجہ دیں گے:

1)- خواص کی قیادت میں اور عوام کی حمایت اور نظارت میں ایجاد ہونے والی طرز حکومت کو ترجیح اور فروغ دینا۔ اس مکتب کو بعض مصلح افراد نے 40 کی دہائی میں بنیاد رکهی تهی۔

2)- خواص کی حاکمیت۔

3)- علمائے اسلام کی ہدایت ونظارت میں عوامی حاکمیت۔

ان تین مکاتب فکر میں سے جو بالاختصار ہم نے بروئے ورق اتارا ہے، نوع ثالث ہماری نظر میں اہم اور قابل قبول ہے اور اسی بنیاد پر عصر حاضر کا عظیم الشان اسلامی انقلاب نے اپنے حیاتی ارکان قائم واستوار کر رکها ہے۔ اس لئے کہ اس روشن خیال مکتب کا بانی اور خالق عینی، امام خمینی(رح) ہی ہے لاغیر۔

اس مکتب فکر میں اگرچہ بعض مسائل اور امورات میں، عام اور موجودہ مکاتب کے طرز عمل سے متفق ہوتے ہیں لیکن ان کے درمیان ماہیتی اختلاف بهی ہے۔ مکتب خمینی(رہ) میں عوام کے تمام طبقات، اسلامی حکومت قائم کرنے کیلئے ذمہ دارانہ رویہ اپناتے ہیں لہذا مجاہدانہ انداز بهی اپنے مدنظر صلاحیتوں کے ساته حکومتی افراد کو منتخب کرلیتے ہیں اور دوسری سمت میں، علمائے دین اپنے ذمہ، الہی فریضہ سمجه کر امت کی قیادت ورہبری کی راہ پر بقدر تواں، گامزن ہوتے ہیں اور اسلامی احکام کے نفاذ کی خاطر، قیام للہ پر یقین رکهتے ہیں۔

 

اسلامی حکومت کے بارے میں گفتگو

یہاں ہم اپنے بحث کو آگے بڑهاتے ہوئے امام راحل کے بعض اقوال نقل کرتے ہیں:

آپ رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں:

تمام اسلامی ممالک کو ہم اپنے ہی ملک کی طرح سمجهتے ہیں ۔ ۔ ۔ ہماری خواہش ہے کہ جس طرح ایرانی قوم خواب غفلت سے اٹهی اور ظالموں کے ہاتهوں سے خود کو نجات دی ۔ ۔ ۔ نیز اپنے تمام امورات اور وسائل کو ان کے قبضہ سے رہا کرا لی، دیگر اقوام بهی اسی طرح کے ہو۔

آپ(رح) دوسری جگہ فرماتے ہیں:

طاغوت، بے انصاف سیاسی قوتوں کا نام ہے جن کا چنگل پورے اسلامی ممالک میں چهاگیا ہے، یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ان کے ہاتهوں کاٹ ڈالے۔

نیــز امام خمینی(رح) نے فرمایا:

ہمارے سامنے واحد راہ ہے، ناپاک حکومتوں کا خاتمہ۔ خیانت کار اور جنایت کار ظالموں کا تختہ الٹ دینا ہم سب کی ذمہ داری۔

امام(رہ) قیام للہ اور مستکبرین کے خلاف پیکار کرنے کو سب کی ذمہ داری جانا اور فرمایا:

مسلم امہ کی ذمہ داری ہے کہ قیام کریں، فتح وظفر مسلمانوں کیلئے ہے۔ امریکہ اسلام کا مقابلہ نہیں کرسکے گا۔

بنابرایں، ہم امام(رہ) ہی کے بیان سے آپ(رہ) مذکورہ بالا اقوال کے نتیجہ لیتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:

اسلامی حاکمیت کی تشکیل کو غیر ضروری سمجهنے والے افراد درحقیقت، (دانستہ یا نادانستہ) اسلامی احکام کا نفاذ ہونے کی مخالفت کرتے ہیں، نیـز اسلامی احکام کی شمولیت اور ہمیشہ جاری وساری ہونے کا انکار کر رہیں۔

 

اسلام کے نام فکری سازشیں

مختلف طور طریقے سے فکری، ثقافتی سازشوں کا اجرا ہوا اور سب کے مقصد مرکوز رہا، اسلامی جمہوریہ ایران پر۔ کبهی یہ سازشی اور سازشیں اپنوں یعنی اسلامی دائرے میں رہتے ہوئے انجام پایا اور کبهی شرقی بلاک  اور کبهی مغربی بلاک اور نظام سلطہ کی طرف سے یا ان کی حمایت کے ذریعے واقع ہوئی!

البتہ، اپنوں سے ملنے والے سازشی ضربات، خطرناک اور دردناک بهی ہوتا ہے اس لئے کہ یہ ہمارے درمیان رہتے ہوئے بنیادوں پر واقعی کاری ضرب لگا سکتے ہیں درحالیکہ سب اس سے غافل اور اس کو اپنے ہی سمجه بیٹهے ہیں۔ اس کی حکایت وہی رسول اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ کے دور کی مانند ہے جب مسجد ضرار کے افتتاحیہ میں اللہ کی طرف جبرئیل علیہ السلام نے وحی الہی لے کر آئے اور پیغمبر(ص) اور دیگر مؤمنین کو وہاں جانے منع کرتے ہوئے تخریب کا حکم سنایا۔

امام راحل علیہ الرحمہ نے بهی ایسے دور کا تجربہ کیا ہے، فرماتے ہیں:

بعض افراد بے ہدف ہیں، ان کا کام دعــا وتسبیح یا بعض احکام بیان کرنے کے علاوہ کچه نہیں! لگتا ہے کہ وہ صرف ایسی ہی کام کیلئے دنیا میں آئے ہیں!

امام خمینی(رح) قائد اور بانی اسلامی جمہوریہ ایران نے دوسری جگہ فرمایا:

ہمارے درمیان ایسے نادان افراد بهی موجود ہیں جو غلط افکار کے حامل ہونے کے ساته ساته اس پر ایمان بهی رکهتے ہیں اور دشمن کی چاہت بهی ایسے افکار کے حامل لوگ ہے، سامراجی طاقتوں کو انہی افراد کے ذریعے موقع ملتا تا کہ ہمارے درمیان نفوذ کریں۔

حضرت امام خمینی(رح) اس سے بهی آگے بڑه کر بعض نشانوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

بعض نام نہاد افراد فقیہ نہیں، ایرانی خفیہ ایجنسی نے ان کے سر عمامہ رکها ہے ہوشیاری سے ان کو رسوا کرنا چاہئے۔

آپ رحمت اللہ علیہ ایک اور نشانی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

فقیہ کی ذمہ داری ہے کہ عوام کی صحیح طریقے سے رہنمائی کرے اور انہیں احکام خدا سے دور ہونے نہ دیں، کیونکہ اس وقت فقیہ سب پر حجت ہیں جس طرح پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سب پر حجت رکهتے تهے۔

حضرت(رح) کی تیسری نشانی پر بهی غور کریں، فرمایا:

تزکیہ نفس کریں، اخلاق سے کام لیں، آپ کی دنیا سے بے توجہی بہت سوں کی اصلاح کا سبب ہے، فقاہت کیلئے سنجیدگی کی ضرورت ہے، اسلام کی خدمت کرنے کیلئے فقیہ ہونا چاہیے۔

پهر امام خمینی(رح) ناصحانہ ارشاد فرماتا ہے:

شکست کی لغت کو ہم اپنے سے دور پهینکنا ہوگا۔ جو کہتے ہیں کہ سپر طاقتوں کی موجودگی میں ہماری آپسی وحدت کا معنی نہیں رکهتا، اس کو بهی نیست کرنا چاہئے۔ اہم بات، آپ کا ارادہ ہے تو اس وقت اللہ تعالی نے آپ کی چاہت کے سبب اس کو کر دیکهائیں گے۔

نیــز فرمایا:

اسلام کو فراموشی کے سپرد کرنے والے تهیں، بلکہ نابودی کی دہلیز پر لا کهڑا کردیا، عنقریب تها اس کو کچل بهی دیں! تو جان لیں کہ آپ جوانوں کا انقلاب، الہی انقلاب تها جس کے نتیجے میں قرآن پهر سے زندہ ہوا، اسلام کو حیات ثانی ملا۔

امام خمینی(رح) اپنے کلام کی تصدیق کچه اس طرح فرمایا ہے:

جب میں آپ جوانوں کو دیکهتا ہوں جو مجه سے شہادت کی دعــا کیلئے کہتے ہیں تو بے حد شرمندہ ہوتا ہوں۔

اسی طرح اسلامی ممالک کے حکام کی جانب اشارہ کرتے ہوئے وصیت فرماتے ہیں:

ہاں! اسلامی ممالک کے بعض حکام کو وصیت کرتا ہوں کہ دلوں پر حکومت کرنے کی کوشش کریں نہ کہ جسموں پر، ورنہ وہ آپ سے بیزار ونفرت میں رہیں گے۔

والســلام علی عبادہ الصالحین

والحمدللہ

ای میل کریں