سیرت پیغمبر ؐ میں مساوات

سیرت پیغمبر ؐ میں مساوات

خود پیغمبر ؐ اور امیر المومنین ؑ بھی قانون کے تابع ہیں

رسول اﷲ  ﷺ ان تمام امور میں  کہ جن میں  لوگ یکساں  ہیں  اپنے کو دوسروں  کی طرح سمجھتے تھے اور اپنے لیے کسی امتیازی حیثیت کے قائل نہیں  تھے۔ سیرت نبوی ؐ میں  پائے جانے والے مساوات کے سبق آموز جلوؤں  میں  سے ایک جلوہ قانون کے سامنے مساوات ہے۔ امام خمینی  ؒ فرماتے ہیں :

’’پیغمبر اسلام ﷺ، ائمہ اسلام (ع) اور تمام خلفائے اسلام قانون کے سامنے مطیع وخاضع تھے اور قانون کے آگے سراپا تسلیم تھے‘‘۔                              (صحیفہ امام،ج ۱۴، ص ۴۱۴)

        یہ مسئلہ حکومتی عہدیداروں  کیلئے بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے، کیونکہ بڑی پوسٹ انسانوں  کیلئے یہ امکان فراہم کرتی ہے کہ وہ خودپسندی اور امتیاز طلبی کی طرف قدم بڑھائیں  اور اپنے کو سب سے بڑا سمجھیں  اور قانون کے سامنے مساوات پر آمادہ نہ ہوں ، لیکن سیرت پیغمبر ؐ میں  مساوات اس طرح درخشان اور روشن ہے کہ جس کی مثال تاریخ بشر اور تمام حکومتوں  میں  نہیں  ملتی ہے۔ یہ خصوصیت مختلف الفاظ میں  امام خمینی  ؒ کے بیانات میں  آئی ہے اور اس پر زور دیا گیا ہے۔ چنانچہ آپ ؒ کہتے ہیں :

’’اسلامی حکومت وہی ہے جو صدر اسلام میں تھی جس میں تمام اقوام وقبیلے قانون کے سامنے برابر تھے‘‘۔

(صحیفہ امام،ج ۱۱، ص ۳)

’’اسلام میں قانون کی حکومت ہوتی ہے اور قانون سے مراد، الٰہی قانون ہے، قرآن وسنت کا قانون ہے اور حکومت قانون کے تابع ہے، یعنی خود پیغمبر ؐ اور امیر المومنین ؑ بھی قانون کے تابع ہیں ۔ یہ افراد قانون کے خلاف ایک قدم بھی نہیں اٹھاتے تھے اور نہ ایسا کرسکتے تھے‘‘۔                                           (صحیفہ امام،ج ۱۱، ص ۲۲)

        رسول اسلام  ﷺ کی زندگی کے آخری ایام میں  ایک واقعہ پیش آیا جس سے قانون کے سامنے سب کے مساوی ہونے کی اہمیت معلوم ہوتی ہے۔ لوگ یہ تعجب خیز منظر دیکھ رہے تھے تاکہ سب لوگ ہمیشہ کیلئے یہ جان لیں  کہ قانون کے سامنے کیسے رہیں  اور خلق خدا میں  سب سے عظیم ہستی کی سیرت کیا تھی۔ امام خمینی  ؒ اس منظر کو اس طرح بیان کرتے ہیں :

’’حضرت رسول اﷲ ﷺ اپنی عمر کے آخری حصہ میں ایک دن منبر پر تشریف لے گئے اور فرمایا: اگر کوئی میرے اوپر حق رکھتا ہو تو بتائے۔ کوئی بھی حق نہیں رکھتا تھا، لیکن ایک عرب کھڑا ہوا اور کہنے لگا: میں آپ پر ایک حق رکھتا ہوں! پوچھا: وہ کیا ہے؟ کہنے لگا: آپ فلاں  جنگ میں  جا رہے تھے تو اس وقت آپ نے مجھے ایک کوڑا مارا تھا۔ فرمایا: کہاں  مارا تھا؟ کہنے لگا: پشت پر۔ رسول اکرم ؐ نے فرمایا: آؤ اور اس کے بدلے میں  مجھے مارو۔ اس نے کہا: اس وقت میرا شانہ ننگا تھا، لہذا آپ بھی اپنا شانہ ظاہر کریں ۔ رسول ؐ نے فرمایا: بہت اچھا، آپ نے شانہ ظاہر کردیا۔ وہ عرب آیا اور بوسے دینے لگا اور کہنے لگا: میں  رسول اﷲ کے بدن مبارک کے بوسے لینا چاہتاتھا!

قابل توجہ مسئلہ اور مطلب یہ ہے کہ آپ ؐ اس وقت حجاز اور بعض دیگر مقامات کے حکمران تھے، ایسی شخصیت بالائے منبر آئے اور یہ کہے کہ جو میرے اوپر حق رکھتا ہے وہ بتائے!‘‘۔                    (صحیفہ امام،ج ۴، ص ۳۲۶)

ای میل کریں