ہم سب کےلئے قیام امام حسین(ع) میں اخوت، برادری، بھائی چارگی اور ایک دوسرے کی غلطیوں اور توبہ قبول کرنے کا پیغام ہے۔
جماران کے مطابق، حجۃ الاسلام والمسلمین شیخ محمد سروش محلاتی نے اپنی گفتگو کا آغاز ایک سوال سے کیا اور کہا:
قیام امام حسین(ع) میں سب سے اہم مسئلہ اس سوال کا جواب ہےکہ کیا امام(ع) نے جنگ کے علاوہ کسی اور چیز کے بارے میں سوچا تھا؟
کیا دشمن کے ساتھ مذاکرہ کرنے کی راہ کو کھولا دیکھتے تھے یا آپ کی نظر میں یہ راہ بند تھا؟
دینی مسائل کے ماہر و کارشناس نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ تاریخی زوایے سے یہ بات طے شدہ ہےکہ امام حسین(ع) نے کئی بار عمر بن سعد ملعون کے ساتھ ملاقاتیں کی؛ لیکن ان ملاقاتوں کے بارے میں ہمارے علمائے اعلام کی رائے مختلف ہے:
پہلا موقف یہ ہےکہ امام (ع) چاہتے تھے کہ کسی طرح دونوں طرف کسی نتیجہ پر پہنچے، اس لئے مذاکرہ اور راہ حل کی تلاش میں تھے۔
دوسری تفسیر یہ ہےکہ امام (ع) ملاقاتوں کے ذریعے اس کوشش میں تھے کہ کسی طرح عمر بن سعد کو جنگ کے خیال سے نکالا جائے اور اسے دشمن کے لشکر سے الگ کر دیں۔ یقینا جب ابن سعد جنگ سے گریز کرتا تو لشکر میں اختلافات پیدا ہوجاتا، لیکن یہ بات مدنظر رکھنا ضروری ہےکہ امام (ع) مذاکرات کے ذریعے لیں دیں یا سمجھوتا کرنے کی فکر میں نہیں تھے، بلکہ آپ کی جد و جہد یہ تھی کہ کسی طریقے سے ابن سعد کو جذب اور اسے جنگ سے دور کر دے۔
تیسرا موقف یہ ہےکہ ہم ان ملاقاتوں کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتے، کیوںکہ اس سلسلہ میں ہمارے پاس کوئی معتبر رپورٹ نہیں ہے، لہذا اس حوالے سے ہمیں خاموش رہنا چاہیئے۔
حوزہ اور دانشگاہ کے استاد نے مزید کہا:
شیخ مفید(رح) علمائے شیعہ میں سب سے بڑے عالم ہیں، آپ اپنی کتاب " الارشاد " میں لکھتے ہیں کہ عمر بن سعد کے ساتھ ایک ہزار سپاہی، امام (ع) کے پاس آیا؛ امام نے ان سے فرمایا: " دیکھو! یہ تمہارے شہر کی عوام کے خطوط ہیں اور میں ان کے خطوط کی وجہ سے یہاں آیا ہوں۔ اگر عوام نہیں چاہتی اور نادم ہیں تو میں واپس چلا جاتا ہوں"۔
یہی بات امام (ع) نے عمر بن سعد سے ملاقات کرنے سے پہلے بھی کہی تھی، جہان حضرت نے حر بن یزید کو تجویز دی کہ ہم یہاں سے واپس لوٹتے ہیں، لیکن حر نے کہا: " نہیں! مجھے اجازت نہیں ہےکہ آپ لوگوں کو چھوڑوں"۔
امام حسین(ع) دیکھ رہے تھے کہ عمر سعد کے لشکر میں یوں ہی اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور خود کو جنگ کےلئے تیار کر بھی رہا ہے۔ آپ (ع) نے پیغام بھیجا اور ملاقات کےلئے فرمایا۔ رات کو امام (ع) اور عمر سعد کے درمیان تفصیلی گفتگو ہوئی۔ امام (ع) اور عمر سعد دونوں واپس لوٹے اور ابن سعد نے عبید اللہ کو خط لکھا کہ اللہ تعالی کا شکر ہےکہ جنگ کی آگ بوجھ گئی اور سارے نظریاتی اختلافات حل ہوگئے اور اللہ نے اپنے کرم سے امت کا کام صحیح سمت پر لگا دیا ہے۔ حسین بن علی نے قبول کیا ہےکہ حسب ذیل طریقے سے کوئی کام بجا لائیں گے:
۱۔ جہاں سے آئے ہیں وہاں لوٹ جائیں گے!
۲ ۔ حسین بن علی کو سرحدی علاقوں کی طرف جلا وطن کیا جائے!
۳۔ سیدھا شام جائے اور یزید سے ساتھ ملاقات اور گفتگو کریں!
تاریخی کتب میں آیا ہےکہ عبیداللہ نے اس تجویز کو پسند کیا اور معقول ہے کہا؛ لیکن شمر بن ذی الجوشن اور دوسروں نے مخالفت کی اور مشورہ دیا کہ اس وقت حسین بن علی تمہارے ہاتھوں میں ہیں اور یزید نے ہمیں اس بات کوئی اجازت نہیں دی ہے اور جنگ کے علاوہ کوئی اور راہ حل نہیں ہے!! اس طرح عبیداللہ بھی رخ بدل دیا اور کہا: یا ہمیں جنگ کرنی ہوگی یا پھر حسین خود کو ہمارے حوالے کرے!!
شیخ مفید(رح) نے امامت کے بارے میں ایک کتاب لکھی ہے جس میں اس رپورٹ کو نقل کرتے ہیں اور امام (ع) کے اس موقف میں اور شیعہ اصول میں کوئی تکڑاؤ نہیں دیکھتے، لیکن افسوس کے ساتھ آخری دس سالوں میں ہماری سیاسی اور اجتماعی سوچ میں ایسی تبدیلیاں رونما ہوئیں ہیں کہ جس کی وجہ سے ہم تاریخی منابع میں نقل شدہ رپورٹ کو بیان یا لکھنے سے گریز کرتے ہیں۔
لیکن مسئلہ یہ ہےکہ کیا ایک فقیہ کی نظر میں دشمن کے ساتھ صلح جایز ہے یا نہیں؟
علامہ حلی اپنی قواعد کی کتاب میں لکھتے ہیں: " اگر مسلمانوں کی مصلحت اور منافع تقاضا کرے کہ جنگ نہ کیا جائے تو عہد و پیمان باندھنا جایز ہے اور اسلامی معاشرے کو جنگ کی ضرورت نہ ہو تو اس جنگ سے گریز کرنا واجب ہے"۔
محقق کرکی قواعد پر اپنی شرح میں لکھتے ہیں: " امام (ع) نے مصلحت کے پیش نظر اقدام کیا ہے اور آپ جانتے تھے کہ اگر یزید کے ساتھ کوئی معاہدہ کیا جاتا وہ اس پر وفا نہیں کرےگا اور موجودہ حالات اور شرائط سراسر اسلامی معاشرے کے نقصان میں ہوگا اور یہ خلاف ہیں"۔
استاد سروش محلاتی نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ کلی طور پر فقہا کے کلام میں مصلحت اور منافع کے پیش نظر صلح کرنے پر کوئی منفی رائے نہیں ملتی؛ کہا: ہمارے فقہا اور بزرگان دین کے کلام میں کہیں بھی نہیں ملتا کہ بوقت ضرورت دشمن کے ساتھ صلح یا مذاکرات کرنا، غلط اور برا کام ہے، ایسی کوئی بات نہیں۔ تجزیہ اور تحلیل کی جاتی ہےکہ امام (ع) نے صرف ملاقات کی، کوئی مذاکرہ نہیں کیا اور عمر سعد کو نصیحتین کی بلکہ اسے دہمکی دی ہے؛ جبکہ اس پر کوئی تاریخی گواہ نہیں ہے بلکہ اس کے خلاف ہمارے پر تاریخی شواہد موجود ہیں۔
انھوں نے کہا: ۳۰ مہر ۱۹۳۵ (۲۱ اکتوبر ۲۰۱۶) کے روز، صدر روحانی نے صوبہ زنجان میں اپنی تقریر میں کہا: " ہم سب کےلئے قیام امام حسین(ع) میں اخوت، برادری، بھائی چارگی اور ایک دوسرے کی غلطیوں اور توبہ قبول کرنے کا پیغام ہے۔ قیام کربلا میں، فائدہ مند تعمیری صبر و برداشت اور منطق، اخلاق اور شرعی اصول و موازین کے دائرہ میں گفتگو اور مذاکرہ کرنے کا درس ہمیں ملتا ہے۔
نویں محرم کی رات، امام حسین (ع) نے ایک خیمہ کھڑا کیا اور عمر سعد کو مذاکرہ کی دعوت دی؛ جبکہ آپ (ع) کو علم تھا کہ کل، خود اور آپ کے اصحاب اسی عمر بن سعد کے ہاتھوں شہید ہوں گے، لیکن امام (ع) نے اپنے اس اقدام سے چاہا کہ دنیا والوں کے سامنے اپنی حجت پوری کرے، اسی خاطر اسی رات، کئی گھنٹوں تک عمر سعد کے ساتھ مذاکرات کیا تاکہ ایک دوسرے کے سامنے کھڑا ہونا جنگ و خونریزی پر ختم نہ ہو۔
اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ امام حسین(ع) شہادت سے دڑتے تھے، بلکہ امام شہادت کا دل و جان سے استقبال کرتے تھے، لیکن اپنی اس کوشش سے ہمیں سیکھایا کہ اپنے دشمن کے ساتھ بھی ایسا برتاؤ اور سلوک رکھو کہ دنیا والے مذاکرات کے میدان میں بھی ہماری منطق کو کامیاب جانے۔
اسلام نے ہر حالت اور شرائط میں جنگ اور صلح کی راہ، جبری طور و طریقے سے ہمارے سامنے نہیں رکھا ہے بلکہ یہ ہماری اپنی حالات اور شرائط سے مربوط ہیں کہ کہاں جنگ پر مجبور اور کہاں صلح اپنا لیں۔
جماران خبررساں ویب سائٹ