امام خمینیؒ کے وعدوں کی تکمیل اور انقلاب اسلامی کی کامیابی کسی ملک کے سیاسی نظام کی تبدیلی کے لئے رونما ہونے والا واقعہ نہیں تهی بلکہ امریکی،یورپی اور اسرائیلی حکام کی یادداشتوں اور تجزئیوں کے مطابق یہ انقلاب مغربی دنیا کو تہ و بالا کرنے والا ایک زلزلہ تها [1] اسلامی انقلاب کی وجہ سے امریکہ نے دنیا کے ایک حساسترین خطے میں بہترین جغرافیائی ، اقتصادی اور عسکری محل وقوع رکهنے والے ملک کو گنوادیا تها جس کی امریکہ کے رقیب سوویت یونین کے ساته طویل سرحد یں ملتی ہیں ۔ اس عظیم دهماکے کی گونج سے اسلامی اور عرب ممالک میں مغرب سے وابستہ حکومتیں بهی لرزکر رہ گئیں ۔اسلامی انقلاب کا اصل پیغام ثقافتی پہلو کا حامل ہے ، اس کی بنیادیں دینی افکار اور روحانی اقدار پر استوار ہیں ، لہذا انقلاب کی کامیابی سے مراد اس پیغام کا پرچار ، ان اقدار کی برآمد اور اسلامی ممالک کے علاوہ تیسری دنیا کے ممالک میں آزادی کی تحریکوں کی لہر کو متحرک کرانا تهی ۔
ایران کی شاہی حکومت کی سرنگونی کے ساته ساته نیکارا گوے میں قائم امریکہ سے وابستہ حکومت بهی سرنگوں ہوئی ۔ ادهر سوویت یونین نے افغانستان میں اسلامی تحریک کی لہر کو روکنے کیلئے پہلے ایک خونی فوجی بغاوت کرائی ، اس کے بعد اس ملک پر چڑهائی کرکے اس پر قبضہ کرلیا ۔ لبنان اور فلسطین کے عوام نے انقلاب ایران کی کامیابی کا جشن منایا اور اپنے جہادی عمل کو نئی شکل دے کر اسے ،اسلامی انقلاب کے خطوط پر منظم کرنا شروع کیا ، مصر، تیونس ، الجزائر ، سودان ، سعودی عرب اور ترکی میں اسلامی تحریکوں میں نئی جان پڑگئی ۔
دوسری عالمی جنگ کے بعد دنیا پر ایک ظالمانہ اور غیر منصفانہ نظام حاکم تها ۔ دنیا کے مختلف علاقے اکثر مشرق و مغرب کی دو طاقتوں کے درمیان منقسم تهے ، وارسا پیکٹ اور نیٹو معاہدہ اس نفرت انگیز نظام کی حفاظت کیلئے بنائے گئے تهے ۔ تیسری دنیا میں رونما ہونے والی دگرگونیاں اور ہر قسم کی حرکتیں اس نظام سے مستثنی نہیں تهیں اور ان دو مقتدر طاقتوں سے وابستگی کے بغیر کسی تحریک کی کامیابی کا کوئی امکان نہیں تها ۔ اور اب معاصر دنیا میں مغرب والوں کے پر امن علاقے میں ایک ایسا انقلاب کا میاب ہوچکا تها جس کا بنیادی نعرہ ’’ نہ مشرقی نہ مغربی ‘‘ تها ایران میں امام خمینیؒ کی تحریک نے براہ راست امریکہ سے پنجہ آزمائی کرکے اسے شکست تسلیم کرنے پر مجبور کیا تها اور یہ ایک ایسی حقیقت تهی جس نے کمیونسٹوں کو ان کے سامراج مخالف جدوجہد کے دعؤں کے سامنے شرمسار ہونے پر مجبور کیا تها ، اس انقلاب نے آج کے دور میں اقوام کی جد وجہد کے میدان میں پہلی باردین کو ایک حرکت بخش عنصر کی حیثیت سے متعارف کرایا تها ۔
غیر یقینی صرتحال ، شاہی حکومت کے تحفظ اورامام خمینیؒ کی کامیابی کا راستہ روکنے کیلئے بین الاقوامی سطح پر ہونے والی تمامتر کوششوں کے باوجود اسلامی انقلاب اپنی جدوجہد کے پہلے مرحلے میں ہی کامیاب ہوگیا ، لہذا یہ کامیابی عام تبدیلی سے ہٹ کر ایک معجزہ سمجهی جاتی ہے ۔ امام خمینیؒ اور آپؒ کے بے شمار عقیدتمندوں کو عام تجزیہ و تحلیل سے ہٹ کر آپؒ کے اقوال اور وعدوں پر دلی یقین تها ، لیکن عام سیاسی تجزیہ نگار اور ایران کے حالات و واقعات سے واقفیت رکهنے والے لوگ شاہی اقتدار کے آخری دنوں تک اس طرح کی کامیابی کو ناممکن سمجهتے رہے ۔
لہذا ۱۱ فروری ۱۹۷۹ء کی صبح سے ہی بڑے پیمانے پر نوبنیاد اسلامی حکومت کے خلاف دشمنی کا آغاز ہوا ۔ خصومت کے اس محاذ کی قیادت امریکہ کر رہاتها ۔ برطانوی حکومت ، بعض یورپی ممالک اور مغرب سے وابستہ دیگر حکومتیں اس محاذ کی سرگرم ارکان تهیں ۔ سابقہ سوویت یونین اور اسکے حلیف ممالک ایران میں پیش آنے والے اس واقعے سے اس لئے ناخوش تهے کہ اس کے نتیجے میںدین مذہب کو بالادستی حاصل ہوگئی تهی ، اسی لئے متعدد مراحل پروہ عداوت کی آگ میں جل کر امریکیوں سے مفاہمت یا ان کی حمایت کرتے رہے، اس قسم کی مشترکہ مفاہمت کا نمونہ ایران کے اندر سرگرم عمل دائیں اور بائیں بازو سے وابستہ انقلاب دشمن قوتیں تهیں جن کی امریکی اور روسی سفارتخانوں سے وابستگی کا پردہ بعد میں چاک ہوا [2]۔
اوران سب سے واضح تر مثال صدام کو مسلح کرنے میں ان دونوں ملکوں کی ہمہ گیر مفاہمت اور اسلامی جمہوریہ ایرن کے خلاف جنگ میں اس کی حمایت ہے ۔ امام خمینیؒ اسی ( عدم وابستگی کی ) منطق کے ساته جس کے ذریعے برسوں پہلے انہوں نے تن تنہا اپنی تحریک کا آغاز کیا تها غیر ملکی دباؤ کی عروج کے اس دورمیں بهی تمامتر فتنہ پردازیوں کے باوجود انقلاب کی رہنمائی کرتے رہے ۔ امام خمینیؒ کا نصب العین ’’ تلوار پر خون کی فتح ‘‘ تها ، آپؒ کو یقین تها کہ اعلیٰ ترین انسانی درجہ کمال کی حیثیت سے شہادت پر ایمان رکهنے اور خدا کی راہ میں ثابت قدم رہنے سے معاشرے کو کامیابی ملتی ہے ۔ امام خمینیؒ کی یہ خواہش تهی کہ پوری ایرانی قوم ملک کی تعمیر و ترقی کیلئے میدان عمل میں آجائے اور ایک صحت مند ترقی یافتہ اور مثالی دینی معاشرہ قائم کرے ۔ قوم نے جہاد سازندگی ( جہاد برائے تعمیر) کے نام سے اپنی جدوجہد کا آغاز کیا، اس مہم کے تحت ہزاروں ماہرین اور انقلابی عناصر ملک کے محروم و پسماندہ علاقوں اور دیہاتوں کی طرف روانہ ہوئے ۔ وسیع پیمانے پر سڑکوں کی تعمیر ،حفظان صحت اور علاج و معالجے کے مراکز ، آب نوشی اور بجلی پہنچانے کے منصوبے پر کام کا آغاز ہو ا ، لیکن انقلاب کی کامیابی کو ابهی چند دن نہیں گذرے تهے کہ غیر ملکی دباؤ اور فتنہ پردازیوں میں اضافہ ہونے لگا ۔ اسلامی حکومت کو سرنگوں کرنے کی خاطر امریکہ نے ایران کے اندر فتنہ کالم قائم کیا جس نے حکومت کو اندروں ملک مشکلات سے دچار کرکے اختلافات کو ہوا دینا شروع کیا ۔ ایران میں امریکی سفارتخانہ بعض پٹهو عناصر کے ذریعے عارضی حکومت میں اثر ورسوخ حاصل کرکے اپنی مستقبل کی شرارتوں کیلئے راہ ہموار کرنے کی خاطر سر گرم عمل ہو گیاتها ، کچه حدتک امریکی اپنے ان مقاصد میں کامیاب بهی ہوئے ۔ جناب بازرگان کی عارضی کابینہ حکومت کے اکثر ارکان مصلحت اندیش اور قوم پرست افراد پر مشتمل تهے [3] اسی لئے وہ لوگ حالات اور انقلاب کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہ ہوسکے ، اس کے علاوہ وہ امام خمینیؒ کی ہدایات اور دور اندیش خیالات کو سمجهنے سے بهی قاصر تهے ۔ حالات پر عارضی حکومت کی گرفت کمزور تهی ہی ، لیکن ستم ظیرفی یہ ہے کہ اس کے مصلحت اندیشانہ رویوں کی وجہ سے انقلاب دشمن چهوٹے گروپ بیرونی امداد کے ذریعے تیزی سے منظم ہو کر گنبد کاووس او ر کردستان سمیت دیگر علاقوں میں کشیدگی پهیلانے لگے ۔ اسلامی انقلاب کی کامیابی کی وجہ سے عراقی عوام کے اندر بعثت حکومت کے خلاف بیداری کی لہر پیدا ہونے کے قوی تر امکانات پائے جاتے تهے ، اسی لئے عراقی حکومت پریشانی کے عالم میں ایران کے جنوبی صوبوں اور کردستان میں انقلاب دشمن عناصر کو اسلحہ فراہم کرنے لگی ۔ امریکہ اور روس کے سفارت خانے انقلاب کو غیر مستحکم کرنے کیلئے ساواکیوں اور شاہی حکومت کے بچے کهچے عناصر کے علاوہ چهوٹی کمیونسٹ جماعتوں اور مجاہدین خلق ( منافقین) کو ورغلانے کے لئے سرگر م عمل تهے ۔ فرقان نامی چهوٹے دہشت گرد گروپ نے ذیل میں دی گئی تاریخوں میں مندرجہ ذیل انقلابی شخصیات کو شہید کیا:
عظیم مفکر اور انقلابی کونسل کے رکن آیت اللہ مرتضی مطہریؒ کو ۲ مئی ۱۹۷۹ء میں ، آیت اللہ قاضی طباطبائی کو یکم نومبر ۷۹ء میں ، آیت اللہ ڈاکٹر محمد مفتح کو ۱۹ ستمبر ۷۹ء میں ، حاج مہدی عراقی اور ان کے بیٹے کو ۲۶ اگست۷۹ء میں ، جوائنٹ چیف آف سٹاف جنرل قرنی کو ۲۳ اپریل ۷۹ ء میں ، تاہم گروپ آیت اللہ ہاشمی رفسنجانی اور آیت اللہ موسوی اردبیلی کوقتل کرنے میں ناکام رہا ۔
امام خمینیؒ کردستان کی شورشوں کے پیچهے چهپے ہوئے ہاتهوں کو پہچان گئے تهے ، اسی لئے آپؒ نے انقلاب دشمن قوتوں کے خلاف بروقت کاروائی کرتے ہوئے مکمل طور پر ان کا صفایا کرنے کا پختہ ارادہ کرلیا تها ، لیکن ایک طرف عارضی حکومت فتنہ پرداز عناصر کے ساته بے سودمذاکرات میں وقت ضائع کررہی تهی ، دوسری جانب وہ ان کے ساته نرمی سے پیش آکر کئی سنہری مواقع گنوانے اور عملا فسادات کیلئے راہ ہموار کرنے کا باعث بن رہی تهی ۔ادهر شاہی حکومت سے ورثے میں ملنے والی معیشت کا انحصار مکمل طورپر تیل کی قومی دولت کو فروخت کرنے سے حاصل ہونے والی آمدنی پر تها ۔ اس حقیقت کے پیش نظر امریکہ اور یورپ نے سعودی حکومت اور اوپک تنظیم میں اس کے ہم خیال ممالک کے تعاون سے دهیرے دهیرے تیل کی قیمت میں کئی گنا کمی کراکے ایرانی تیل کی مارکیٹ کو غیر مستحکم کرنے کیلئے سعی بلیغ کی ۔ ان تمام مشکلات کے باوجود امام خمینیؒ ؒ نہ صرف مصالحت کیلئے آمادہ نہیں ہوئے بلکہ آپؒ ایک قدم پیچهے ہٹنے کیلئے بهی تیار نہیں تهے آپؒ نے انقلابی اداروں کے قیام کے ذریعے عارضی حکومت کی کمزوریوں کا ازالہ کرتے ہوئے انقلاب کو جاری رکهنے کی ضمانت فراہم کی ، ایرانی عوام بهی انقلابی میدان میں جاں نثاری کے جذبے کے ساته ڈٹے رہے ۔
ابهی انقلاب کو دو ماہ بهی نہیں گذرے تهے کہ یکم اپریل ۱۹۷۹ء کو منعقد ہونے والے ریفرنڈم میں ۲/۹۸ فیصدرائے دہندگان نے اسلامی جمہوری نظام کے حق میں ووٹ دیا۔ یہ ریفرنڈم ایرانی تاریخ کی شفاف اور غیر جانبدارانہ رائے شماریوں میں سے ایک تها ، جس کے بعد دیگرے ملک کے بنیادی آئین کی تدوین اور اس کی منظوری کیلئے ہونے والے ریفرنڈم کے علاوہ مجلس شورائے اسلامی کے انتخابات منعقد ہوئے ۔
[1] دیکهئے : ’’ توطۂ درا یران ‘‘ مصنفہ سائرز وینس ( سابق امریکی وزیر خارجہ ) اور زبیگنیوبرژنسکی ( وہائٹ ہاؤس کی سکیورٹی کے مشیر) ترجمہ ( فارسی ) محمود مشرقی۔ ناشر: انتشارات ہفتہ ، ۱۳۶۲ ه ش ( ۱۹۸۳ء ) ’’ ماموریت درایران ‘‘ ویلنم سیلوان ، ترجمہ مشرقی ۔ ناشر : انتشارات ہفتہ ، ۶۱ ۱۳ ه ش ( ۱۹۸۲ء ) اور ’’ ماموریت درتہران ‘‘ جنرل ہوئزر کی یادداشتیں ، ترجمہ حسین عادلی ، ناشر : نشر خدمات فرہنگی رسا، ۱۳۶۵ ه ش ( ۱۹۸۶ ء ) نیز کتاب ‘‘ اقتدار اور زندگی ‘‘ مصنفہ ویلری ژیسکار دستان( سابق صدر فرانس ) ، ترجمہ طلوعی ، ناشر : پیک ترجمہ و نشر ، ۱۳۶۸ ه ش ( ۱۹۸۹ء ) ۔
[2] دیکهئے ’’ ایران میں کے جی بی ‘‘ دلادیمیر کو زیچکین ( کے جی بی کا سابق آفیسر ) ترجمہ اسماعیل زند اور ڈاکٹر ابو ترابیان ۔ تہران ، ۱۳۷۰ ه ش (۱۹۹۱ء) نیز ’’ ایران مں امریکہ کے جاسوسی اڈے کی دستاویزات ‘‘ کا مجموعہ ، ترجمہ و ترتیب از امام خمینی ؒ کے نقش قدم پر چلنے والے مسلم طلبہ ، ناشر : امریکہ کے جاسوسی اڈے کی دستاویزات کااشاعتی مرکز ۔ تہران ۔
[3] عارضی انقلابی حکومت جس کے تقریبا تمام ارکان نہضت آزادی اور جبۂ ملی کی جماعتوں کے اراکین پر مشتمل تهے ، امام خمینی ؒ کے احکامات اور ابتدائی عہد وپیمان کی مخالفت تهی ،اس سلسلے میں کتاب ’’ کوثر ۔ انقلاب اسلامی کے واقعات کی تفصیل ‘‘ ج ۳ ص ۳۵۹ ۔ ۳۶۳ کی طرف رجوع کیجئے ۔