امام خمینی(ره) کے کلام میں لفظ فطرت کیلئے تین معانی بیان کئے جاسکتے ہیں :
الف: مقتضائے خلقت
امام خمینی(ره) کے بیانات میں فطرت وخلقت مختلف موارد میں عطف تفسیری کی صورت میں دونوں ہی مترادف معنی استعمال ہوا ہے۔ (شرح چہل حدیث، ص ۳۲۳ ) یہ استعمالات بتاتے ہیں کہ امام خمینی(ره) ان امور کو فطری بتاتے ہیں جو انسان بلکہ ہر موجود کی فطرت کا اقتضاء ہے اور اس کی طبیعت میں پائے جاتے ہیں ۔ اس کے علاوہ امام خمینی(ره) الٰہی فطرتوں کو صرف انسان سے مخصوص جانتے تھے۔( شرح چہل حدیث، ص ۱۸۰ ) اس کا مفہوم یہ ہے کہ الٰہی فطرتیں دوسرے موجودات میں بھی پائی جاتی ہیں ۔
آپ کا عقیدہ ہے کہ تمام موجودات جو علم وحیات وشعور رکھتے ہیں وہ حق تعالیٰ کی معرفت رکھتے ہیں ۔( شرح چہل حدیث، ص ۲۸۳ )یہ واضح ہے کہ ایسی معرفت، اکتسابی نہیں ہو سکتی اور کم سے کم اس کا اکتسابی ہونا ثابت نہیں ہے کوئی بھی دانشور اس کا اعتقاد نہیں رکھتا پس یہ فطری معرفت، مقتضائے خلقت کے معنی میں ہے۔
ب: طبیعت
اس استعمال میں فطرت ایک طبیعی امر کے معنی میں ہے خواہ وہ تغییر وزوال اور تبدل کے قابل ہو یا نہ ہو خواہ اکتسابی ہو یا غیر اکتسابی یا خوب ہو یا بد، مثبت ہو یا منفی۔
امام خمینی(ره) اخلاقی فضائل ورذائل کے مبادی کی بحث میں ایک مبادی کو فطرت جانتے ہیں آپ لکھتے ہیں :
علمائے اخلاق نے فرمایا ہے کہ یہ حالت اور خلق نفس کبھی انسان کے اندر طبیعی ہوتی ہے، اصل فطرت کی طرف لوٹتی ہے اور مزاج سے مربوط ہوتی ہے چاہے وہ خیر وسعادت کے سلسلے میں ہو یا شر وشقاوت کے سلسلے میں ۔ جیسا کہ مشہور ہے کہ بعض لوگ بچپن ہی سے خیرات کی طرف مائل ہوتے ہیں اور بعض لوگ شر کی طرف مائل ہوتے ہیں کبھی یہ نفسانی اخلاق، عادات ومعاشرت اور تدبر وتفکر کی وجہ سے حاصل ہوتے ہیں اور کبھی شروع میں تفکر ورویہ کی وجہ سے حاصل ہوتے ہیں یہاں تک کہ ملکہ بن جاتے ہیں ۔( شرح چہل حدیث، ص ۵۱۰ )
اگرچہ امام خمینی(ره) نے اس عبارت کے شروع میں کہا ہے کہ علمائے اخلاق کا نظریہ ہے کہ جو خصلتیں بدلتی ہیں وہ فطری ہوتی ہیں لیکن چونکہ آپ نے اس نظریئے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے بلکہ آپ نے اتنا اشارہ بھی نہیں کیا ہے کہ ان پر تبصرہ نہیں کیا جاسکتا ہے جب کہ آپ نے اس کی وضاحت کی ہے لہٰذا یہ کہا جاسکتا ہے کہ آپ نے اس نظریئے کو تسلیم کیا ہے اور آپ کے کلام میں فطرت کے ایک استعمال کو اس عام معنی کو قرار دیا جاسکتا ہے۔
ہم ضمنی طور پر یہ بھی بیان کردیں کہ امام خمینی(ره) نے اپنے دوسرے بیانات میں لفظ فطرت کو بڑی صراحت کے ساتھ اکتسابی اور نا قابل تغییر خصلتوں میں استعمال کیا ہے اگر چہ آپ نے اس کا نام ’’ فطرت ثانوی ‘‘ رکھا ہے۔
ج: الٰہی سرشت
اس استعمال میں فطرت اس حالت وہیئت کے معنی میں ہے جو انسان کے لوازم وجود میں سے ہے اور اصل خلقت میں اسی پر ڈھالا گیا ہے وہ قابل تغییر وتبدیل نہیں ہے۔ امام خمینی(ره) اس بارے میں لکھتے ہیں :
یہ معلوم ہو کہ اس فطر ت الٰہی سے مراد جس پر خدا نے لوگوں کو خلق کیا ہے وہ حالت وہیئت ہے جس پر مخلوق کو قرار دیا ہے جو ان کے وجود کے لوازم اور ان چیزوں میں سے ہے کہ اصل خلقت میں ان کے ضمیر کا اسی پر خمیر ہوا ہے۔( شرح چہل حدیث، ص ۱۸۰ )
امام خمینی(ره) اس فطرت کو انسان سے مخصوص جانتے ہیں اور یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ دوسرے موجودات میں یا تو سرے سے یہ فطرت ہے ہی نہیں ہے یا اگر ہے تو بہت کم ہے۔