حق انتخاب

انسان مختار ہے اور حق انتخاب رکھتا ہے

آخری فیصلہ و نتیجہ انسان کے اختیار میں ہے کہ وہ دو راستوں میں سے کس کو انتخاب کرتا ہے

انسان شناسی کا ایک اہم مسئلہ انسان کا مختار ہونا ہے ’’ اختیار ‘‘ یعنی سوچ سمجھ کر انتخاب کے بعد پختہ ارادہ کرنا۔ قرآن مجید میں  بہت سی آیات انسان کے مختار ہونے پر دلالت کرتی ہیں  مثلاً سورۂ کہف کی آیت نمبر ۳۹ میں  خدا فرماتا ہے:

آپ کہہ دیں  کہ حق ( قرآن ) آپ کے خدا کی جانب سے ہے پس جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کافر ہو جائے۔

کچھ دوسری آیات ہیں  جو دلالت کرتی ہیں  کہ انسان کا امتحان لیا جاتاہے مثلاً سورۂ کہف کی آیت نمبر ۷ میں  ہے:

جو چیزیں  روئے زمین پر ہیں  ہم نے انہیں  زمین کی آرائش قرار دیا ہے تاکہ انہیں  آزمائیں  کہ ان میں  سے کون سب سے زیادہ نیک ہے۔

کچھ آیات انذار، وعد، وعید، مدح اور مذمت پر مشتمل ہیں  یہ آیات صرف اسی صورت میں  معنی رکھیں  گی جب انسان مختار ہو۔

امام خمینی(ره) کے نظریئے کی بنیاد پر بھی انسان مختار ہے اور وہ انتخاب کا حق رکھتا ہے وہ عزم وارادہ اور فطرت الٰہی کے ذریعے کمال انسانی کی راہ میں  قدم اٹھاسکتا ہے یا نفسانی خواہشات کی پیروی کر کے، قوت شہویہ وغضبیہ سے استفادہ کرنے میں  اعتدال سے خارج ہو کر فطرت کے خلاف حرکت کر سکتا ہے پھر تنزلی کی طرف بڑھ جائے گا پس آخری فیصلہ ونتیجہ انسان کے اختیار میں  ہے کہ وہ دو راستوں  میں  سے کس کو انتخاب کرتا ہے۔ امام خمینی(ره) اس بارے میں  فرماتے ہیں :

انسان ایک عجیب وغریب چیز ہے اس سے ایک الٰہی ملکوتی موجود بنایا جاسکتا ہے اور وہ ایک جہنمی شیطان موجود بھی ہے۔۔۔ یہ چیز انسان کے مختصات میں  سے ہے جسے حق تعالیٰ نے اپنے سارے مقدس اوصاف وصفات کے ساتھ پیدا کیا ہے اس کے اندر وہ تمام چیزیں  ہیں ۔( صحیفہ امام، ج ۱۳، ص ۲۸۵ )

 

اصل اول:  انسان کو مربی کی ضرورت ہے

چونکہ انسان ارادہ واختیا رکھتا ہے اور وہ سعادت وشقاوت دونوں  راستوں  میں  سے ایک راستے کو منتخب کر سکتا ہے لہٰذا خدا نے انسان کی ہدایت اور راہ کی مزید وضاحت کیلئے انبیاء  (ع) اور ائمہ اطہار  (ع) کو بھیجا خود یہی امر اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ انسان کو ہادی ورہنما کی ضرورت ہے۔ پس انفرادی اور اجتماعی زندگی میں  بھی انسان کیلئے غفلت وفراموشی میں  گرفتار ہونا ممکن ہے لہٰذا کچھ ایسے افراد کی ضرورت ہے جو کافی معرفت وبصیرت رکھتے ہوں  جن کے آثار واخلاق اور ان کی تربیت صحیح ہو اور وہ انسانوں  کی ہدایت کے ذمہ دار ہوں ۔ امام خمینی(ره)  اس بارے میں  فرماتے ہیں :

جوان افراد ملکوت عالم میں  نئے دور کے ہوتے ہیں  ان کے نفوس پاکیزہ تر ہوتے ہیں  وہ جس قدر آگے بڑھتے جائیں  گے اگر وہ لوگ جہاد (بالنفس) نہ کریں  اور ان کی تربیت نہ کی جائے تو جو قدم بھی آگے بڑھائیں  گے اور جس قدر بھی ان کی عمر بڑھتی جائے گی وہ لوگ ملکوت اعلیٰ سے دور ہوتے جائیں  گے اور ان کے ذہن کی کدورت میں  اضافہ ہوتا جائے گا اسی لئے شروع ہی سے تربیت ہونی چاہئے بچپن ہی سے ان کی تربیت کی جائے اس کے بعد پھر وہ جہاں  بھی ہوں  ان کیلئے مربی ضروری ہے اور زندگی کے آخری لحظات تک تربیت کی ضرورت رہتی ہے۔( صحیفہ امام، ج ۱۴، ص ۱۵۳ )

 

اصل دوم:آزادی

آزادی ایک ایسی بنیادی چیز ہے کہ تعلیم وتربیت میں  اس پر توجہ کی ضرورت ہے چونکہ انسان کے اندر انتخاب کرنے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے لہٰذا طالب علم بالکل آزاد ہو کر سر گرم عمل رہے اور جب وہ مختلف مسائل کاسامنا کرے تو وہ پختہ ارادہ وفیصلہ کی صلاحیت رکھتا ہو اور معلم ایک ’’ ہدایت کرنے والے‘‘کے عنوان سے اسے آزادانہ رہ کر امور کو انجام دینے دے البتہ وہ طالب علم دوسروں  کی کارکردگیوں  میں  رکاوٹ ایجاد نہ کرے اور دوسروں  کو آسیب کے اسباب فراہم نہ کرے۔ امام خمینی(ره) فرماتے ہیں :

انبیاء کی پوری کوشش یہ تھی کہ لوگوں  کو آدمیت سکھائیں  اگر کسی حکومت میں  سب لوگ اچھے ہوں گے تو اس طرح آزاد ہوں  گے کہ کسی کو نقصان نہ ہوگا انہیں  فکری، روحانی اور انسانی استقلال حاصل ہوگا۔( صحیفہ امام، ج ۸، ص ۹۶ )

ای میل کریں