اسلامی حکومت تک رسائی کے قابل عمل طریقے

اسلامی حکومت تک رسائی کے قابل عمل طریقے

ہمیں اسلامی حکومت کے قیام کیلئے مختلف سر گرمیوں کی مسلسل ضرورت ہے

کوئی بھی ذی عقل و شعور اس بات کا منتظر نہیں ہے کہ ہماری تبلیغ اور تعلیم بہت جلد اسلامی حکومت کی تشکیل پر منتج ہوگی، ہمیں اسلامی حکومت کے قیام کیلئے مختلف سر گرمیوں کی مسلسل ضرورت ہے یہ ایک ایسا ہدف ہے کہ جس کیلئے کافی عرصہ درکار ہے۔

دنیا کے عقل مند ایک پتھر گاڑتے ہیں تاکہ دو سو سال بعد اس پر بنیاد رکھیں اور پھر نتیجہ حاصل کریں، خلیفہ نے ایک بوڑھے کسان سے کہا: ’’کیا آپ اخروٹ کا درخت لگا رہے ہو جس پر آئندہ پچاس سال بعد تمہارے مرنے کے بعد پھل آئے گا؟ اس نے جواب میں کہا: ’’دوسروں نے لگائے تھے جو ہم نے کھائے، اب ہم لگا رہے ہیں تاکہ دوسرے کھائیں‘‘۔ اگر ہمارے کام آئندہ نسل کیلئے فائدہ مند وثمرآور ہیں تو ہمیں انجام دینے چاہئیں، کیونکہ یہ اسلام کی خدمت اور انسان کی سعادت وکامیابی کی راہ ہے، یہ کوئی شخصی کام نہیں ہے کہ ہم کہیں چونکہ اب فائدہ (ونتیجہ) نہیں دے گا دوسرے بعد میں فائدہ اٹھائیں گے، لہذا ہم سے کیا مطلب؟

حضرت امام حسین(ع)  نے اپنی ساری مادی چیزیں خطرہ میں ڈال دیں اور قربان کردیں، اگر آپ اس طرح کی فکر رکھتے اور اپنے شخصی فائدہ کیلئے کام انجام دیتے تو شروع میں ہی ساز باز کر لیتے اور قصہ تمام ہوجاتا، اموی گروہ چاہتا تھا کہ حضرت امام حسین  - ان کی بیعت کر کے ان کی حکومت  کی تائید کردیں، ان کیلئے اس سے بہتر کیا تھا کہ فرزند رسول ؐ انہیں ’’امیر المومنین ‘‘ کہے اور  ان کی حکومت کو تسلیم کرلے۔ لیکن آپ  ؑکے پیش نظر اسلام اور مسلمانوں کا مستقبل تھا، آپ نے اس بات کے مدنظر کہ آپ کے مقدس جہاد اور قربانی کے نتیجہ میں مستقبل میں انسانوں کے درمیان اسلام کی اشاعت ہوگی اور معاشروں میں اس کا سیاسی اور اجتماعی نظام برقرار ہوگا حکومت وقت کی مخالفت کی جنگ کی اور قربانی پیش کی۔

حضرت امام صادق   (ع)  اس کے باوجود کہ آپ ظالم وستم گر حکمرانوں کی سختی میں رہے اور تقیہ میں زندگی بسر کی اور آپ کے پاس احکام نافذ کرنے کا اختیار نہیں تھا اور اکثر اوقات آپ کی کڑی نگرانی کی جاتی مگر پھر بھی آپ نے مسلمانوں کیلئے ذمے داری معین کی اور حاکم وقاضی منصوب فرمائے، آپ کے ان کاموں کے کیا معنی ہیں؟ اور اصولاً اس منصوب اور معزول کرنے کا کیا فائدہ ہے؟ بڑے لوگ کہ جن کی فکری سطح بلند ہے وہ کبھی نا امید نہیں ہوتے اور اپنی موجودہ حالت حتی قیدخانہ میں اسیری کے دوران بھی کہ جب انہیں معلوم نہیں ہوتا ہے کہ آزاد ہوں گے یا نہیں اس کے بارے میں نہیں سوچتے اور اپنے مقصد کی کامیابی کیلئے خواہ جس حالات میں ہوں تدبیر کرتے رہتے ہیں تاکہ اگر بعد میں ممکن ہو تو اس تدبیر کو عمل میں لاسکیں اور اگر خود کے حالات سازگار نہ ہوئے اور موقع نہ ملا تو دوسرے لوگ خواہ دو سو یا تین سو سال بعد ہی سہی کوشش کر عمل میں لائیں، بہت سی عظیم تحریکوں کی بنیاد اسی طرح رکھی گئی۔

انڈونیشیا کے سابق صدر ’’سوکارنو‘‘ نے قید خانہ میں پلاننگ کی اور منصوبے تیار کئے جن بعد میں عمل کیا گیا۔

حضرت امام صادق   (ع)  نے تدبیر کے علاوہ افراد منصوب بھی فرمائے، امام  ؑکا منصوب فرمانا اگر صرف اسی زمانے کیلئے ہوتا تو یقینا یہ ایک عبث کام شمار ہوتا۔ آپ  ؑمستقبل کی فکر میں تھے، ہماری طرح نہیں تھے کہ صرف اپنے شخصی فائدے کی فکر کرتے، آپ  ؑکو امت، انسانیت اور پوری دنیا کی فکر تھی۔ آپ انسان کی اصلاح اور عادلانہ قانون نافذ کرنا چاہتے تھے۔ آپ  ؑکو ایک ہزار اور کئی سو سال پہلے تدبیر کرنی اور منصوب فرمانا تھا تاکہ جب ملت بیدار اور آگاہ ہوجائے اور قیام کرے تو پھر اسلامی حکومت کا تشکیل پانا تعجب خیز نہ ہو اور اسلامی رہبر معلوم ہو۔

اصولاً دین اسلام وشیعہ مذہب اور دیگر ادیان ومذاہب نے اسی طرح ترقی کی ہے، یعنی شروع میں تدبیر کرنے کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔ اس کے بعد، ثبات قدم اور پیغمبروں ورہبروں کی واقعی سعی وکوشش کے نتیجہ میں (کامیابی و) فائدہ ہوا، جناب موسی  - صرف ایک چوپان تھے اور سالہا سال تک آپ نے چوپانی کا کام انجام دیا۔ جس دن آپ کو حکم دیا گیا کہ فرعون کے مقابلہ میں جاؤ، آپ کا  کوئی ناصر ومددگار نہیں تھا، مگر آپ نے اپنی ذاتی لیاقت واہلیت اور ثبات قدمی کی بدولت اپنے عصا سے فرعونی حکومت کی بنیاد ہلا دی۔ کیا آپ لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ جناب موسی (ع) کا عصا اگر میرے یا آپ کے ہاتھ میں ہوتا تو ہم بھی یہ کام کرلیتے، اس عصا کے ساتھ فرعون کی بساط لپیٹنے کیلئے جناب موسیٰ  ؑکی ہمت، کوشش اور حکمت عملی چاہیے۔ یہ کام ہر ایک کے بس میں نہیں ہے، جس وقت پیغمبر اسلام  ﷺ مبعوث ہوئے اور آپ نے تبلیغ کرنا شروع کی تو ایک آٹھ سالہ بچہ [علی  (ع)] اور ایک چالیس برس کی خاتون، آپ ؐ پر ایمان لائیں۔ آپ جانتے ہیں کہ لوگوں نے کس قدر آپ  ؐکو تکلیفیں پہنچائی اور مخالفت کی، مگر آپ  ؐنا امید نہیں ہوئے اور آپ ؐنے کبھی نہیں کہا کہ میرا کوئی نہیں ہے، آپ ثابت قدم رہے اور باطنی طاقت وقدرت اور مصمم عزم وارادہ کے ساتھ رسالت کو یہاں تک پہنچایا کہ آج سات سو ملین افراد آپ کے پرچم تلے ہیں۔

شیعہ مذہب بھی صفر سے شروع ہوا جس دن پیغمبر اسلام  ﷺ نے اس کی بنیاد رکھی تو لوگوں نے مذاق اڑایا اور جب آپ نے لوگوں کو دعوت کے ذریعہ جمع کر کے فرمایا کہ جو شخص ایسا کرے گا وہ میرا وزیر ہوگا، تو حضرت علی (ع) کے سوا، کہ جو ابھی بلوغ کی عمر تک نہیں پہنچے تھے مگر باطنی طور پر دنیا میں سب سے بڑے تھے، کوئی نہیں اٹھا۔ ایک شخص نے جناب ابوطالب (ع)  کی طرف رخ کر کے مذاق اڑاتے ہوئے کہا: ’’اب اپنے بیٹے کی اطاعت کیا کرو‘‘۔(تاریخ طبری، ج ۲، ص ۳۱۹)

جس دن آنحضرت ؐ نے حضرت علی  ؑ کی ولایت وحکومت کو لوگوں کے سامنے اعلان کیا تو لوگوں نے بظاہر مبارک باد پیش کی  مگر وہیں سے مخالفت شروع ہوئی اور آخر تک باقی رہی۔ اگر آنحضرت ؐ حضرت علی  ؑ کو صرف شرعی مسائل کیلئے محور ومرکز قرار دیتے تو کسی طرح کی کوئی مخالفت نہیں ہوتی مگر چونکہ منصب ’’جانشینی‘‘ دیا اور فرمایا کہ یہ مسلمانوں کے حاکم اور اسلامی امت کی تقدیر ان کے ہاتھ میں ہے لہذا یہ بات ناراضگی اور مخالفت کا باعث قرار پائی۔ اگر آپ بھی گھر میں بیٹھ جائیں اور امور مملکت میں کسی طرح کا حصہ نہ لیں تو کسی کو آپ سے کوئی سروکار نہیں ہوگا، لوگوں کو اس وقت آپ سے کام ہوگا، جب آپ لوگ مملکت کے فیصلے میں شامل ہوں گے۔ حضرت علی  (ع)  اور آپ کے شیعوں نے چونکہ امور مملکت میں حصہ لیا لہذا مشکلات سے دو چار ہوئے، لیکن اس کے باوجود بھی انہوں نے جہاد اور اپنی فعالیت سے ہاتھ نہیں کھینچا، یہی وجہ ہے کہ ان کی تبلیغ اور جہاد کے نتیجہ میں آج دنیا میں تقریباً دو سو ملین شیعہ ہیں۔

ولایت فقیہ، ص ۱۳۴

 

ای میل کریں