عبد الجبار کاکائی

ادبی حلقوں میں امام خمینی (ره) کے سیاسی چہرے کی ضبط

ساٹھویں دھائی سے لے کر آج تک امام خمینی (ره) کے سیاسی چہرے کےاکثر خد وخال کی وضاحات کی جاچکی ہے جو موجودہ ادبی حلقوں میں ضبط بھی کیے جاچکے ہیں

ایسنا نیوز ایجنسی کے شعبۂ ادب کے نامہ نگار کی رپورٹ کے مطابق سات مارچ کو امام خمینی  علیہ الرحمہ کے آثار کو ترتیب اور نشر واشاعت کرنے  والے انسٹی ٹیوٹ میں ’’یار ویادگار ‘‘ کے موضوع پر نواں شعر فیسٹول منعقد ہوا نیز اس کے سلسلہ میں ایک پریس کانفرانس میں ہوئی۔

کانفرانس کے شروع میں فیسٹیول  کی پالیسی کونسل کے چیئرمین حجت الاسلام علی کمساری نے مذکورہ  انسٹی ٹیوٹ میں منعقد ہونے والے فیسٹولوں  کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا:ہمارے اس  انسٹی ٹیوٹ  کی ایک بنیادی ذمہ یہ ہے کہ وہ امام خمینی قدس سرہ کی شخصیت اور ان کے افکار کی معاشرہ کے سامنے وضاحت کرے، اس سلسلہ میں ہمارا ایک کام اس طرح کی کانفرانسوں اور نشتوں کا انقعاد کرنا ہے  کہ جس کی ایک کڑی ’’یار ویاد گار‘‘ شعر فیسٹول ہے۔

اس کے بعد انھوں نے امام خمینی (رح) کی گرانقدر افکار کو پیش کرنے کے لیے ادب کی زبان استعمال کرنے کی اہمیت  کی طرف اشارہ کیا اور کہا:اسی سلسلہ کو آگے بڑھانے کے لیے  روح اللہ ثقافتی فیسٹولوں کا انعقادہمارا نصب العین ہے جو مختلف شعبوں میں برپا ہوں گے۔

فیسٹول  کی پالیسی کونسل کے چیئرمین نے اس فیسٹول کی آٹھ سالہ تاریخ پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا:مذکورہ فیسٹول میں گذشتہ برسوں میں کچھ تبدیلیاں  آئی ہیں ۔اس سے پہلے یہ فیسٹول ادبی ہوتا تھا کہ جس میں شعر ، کہانیاں اور بائیو گرافی پر مشتمل ہوتا تھا لیکن پچھلے سال سے ہم نے اس کو خصوصی کردیا ہے، دوسری تبدیلی کہ جس نے اس میں چار چاند لگا دیے ہیں وہ اس کی پالیسی کونسل کا بننا ہےکہ جس میں شعر انقلاب کے صاحبان نظر حضرات شامل ہیں ۔

کانفرانس کے دوسر حصےمیں اس سال کے فیسٹول کے کنوینیر جناب عبد الجبار کاکائی نے گفتگو کرتے ہوئے کہا: ہوسکتا ہے کہ کسی کے  ذہن میں امام خمینی  علیہ الرحمہ کے آثار کو ترتیب اور نشر واشاعت کرنے  والے انسٹی ٹیوٹ میں شعری فیسٹول منعقد ہونے کو لے کر شکوک وشبہات پائے جاتےہوں  تو اس سلسلہ میں  یہ وضاحت کرنا ضروری ہے کہ امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی وفات کے بعد شعر میں وسیع پیمانہ پر ایک تحول ایجاد ہوا کیوں کہ  آپ کی وفات کے  بعد  آپ کے فرزند ارجمند الحاج سید احمد خمینی مرحوم نے آپ کے اشعار کے کچھ بند پڑھے جو اس بات کا سبب بنے کہ آج سے ستائیس سال پہلے آپ کا ایک شعری مجموعہ منظر عام پر آئے لہذا شعر پر ہماری یہ توجہ خود امام علیہ الرحمہ کی شخصیت سے ہی  الہام لیتی ہے۔

کاکائی صاحب نے کہا:ہمارے سامنے آج ایک نسل موجود ہے جو اپنے مختلف تاریخی اور سماجی افکار کو شعر کی صورت میں پیش کرنا زیادہ پسند کرتی ہے اسی بناء پر اس فیسٹول کے لیے ہمیں موصول ہونے والا کام  مخصوص ہے اور آئندہ اس سے بھی زیادہ خصوصی ہوگا ۔

انھوں نے کہاہمیں موصول ہونے  کچھ اشعار ایسے بھی ہیں جو ساٹھویں دھائی میں  شاعروں میں پائے جانے والے انداز تفکر سے ہٹ کرہیں  جس کی وجہ سے ان میں ایک طرح کی آزاد تنقید بھی دیکھنے کو ملتی ہے لیکن تاریخ انقلاب کے احترام کو مد نظر رکھتے ہوئے۔

انھوں نے اپنی تقریر کے دوسرے حصے میں امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی شخصیت کے دوسرے پہلوؤں کو بھی اجاگر کرنے کی ضرورت پر بولتے ہوئے کہا:اس فیسٹول میں  موصول ہونے والے اشعار میں  تاریخ انقلاب سے متعلق نئے نئے نظریات ہمیں دیکھائی دے رہے ہیں کہ جن سے امام (رح) کی شخصیت  کے اس پہلوکوپہچاننے  میں بھی مدد مل سکتی ہے کہ جس کو پہچنوانے میں اندرونی اور بیرونی دونوں ذرائع ابلاغ نے سستی سے کام لیا ہے، ان آثار میں بڑی بڑی شخصیتوں اور شاعروں نے امام (رح) کے سیاسی چہرے کو زیادہ سے زیادہ وضاحت کے ساتھ پیش کیا ہے کہ جو موجود ہ ادبی حلقوں کی طرف سے ضبط بھی ہوچکا ہے۔

انھوں نے یہ بھی کہا :فیسٹول کی الوداعی تقریب میں دو کاموں کو منتخب بھی کیا جائے گا۔

اس کےبعد ایسنا کے نمائندہ نے ان سے سوال کیا کہ: یہ فیسٹول پچھلے آٹھ سالوں سے منعقد ہوتا چلا آرہا ہے  جس کا مقصد امام خمینی (رح) کی افکار کی وضاحت اور انھیں نشر کرنا تھیں ، اس میں آپ کہاں تک کامیاب ہوئے ہیں ؟

اس سوال کے جواب میں انھوں نے کہا: ہمیں موصول ہونے والے اشعار سے صاف طور پر پتا چلتا ہے کہ یہ فیسٹول توجہ کا مرکز بنتا چلا جارہا ہے لیکن چوں کہ یہ ایک ادبی کا م ہے  لہذا اس کے سلسلہ میں نظر دینا ذرا مشکل کام ہے ، اس میں محقق اور اھل فن حضرات ہی بتا سکتےہیں  اس لیے کہ اس بات کا ندازہ لگانا کہ امام خمینی رحمت اللہ علیہ  کی افکار کو نشر کرنے میں  شعر اور ادب  کا معاشرہ  میں کیا کردار ہے ، یہ ایک مشکل کام ہے۔

آخر میں انھوں نے کہا:میں یہ سوچ رہا تھا کہ اس فیسٹول پر بہت ہی کم توجہ کی جائے گی  لیکن اتفاق ایسا ہوا  کہ نہ صرف یہ کہ یہ زیادہ ابھر کر سامنے آیا بلکہ  ایک نئے انداز میں ظاہر ہوا جس نے اس کو ایک شجاعت آمیز علمی سوال بنا دیا۔

ای میل کریں