9/ ربیع الاول کی تاریخ سرور و شادمانی، جشن و خوشی کی تاریخ ہے۔ اس دن شیعوں کی عظیم عید ہے اور عید بقر یعنی شگافتہ کرنے کا دن ہے اور اس کی بڑی شرح و تفصیل ہے کہ اپنے مقام پر بیان ہوچکی ہے۔ حضرت رسولخدا (ص) نے اس دن کو عید قرار دیا ہے اور لوگوں کو بھی حکم دیا کہ اس دن کو عید قرار دیں، اچھے سے اچھا کھانا پکائیں۔ خود بھی کھائیں۔ دوسروں کو بھی کھلائیں، خوشی منائیں ، چراغاں کریں۔ غرض خوشی میں جو کچھ بھی جائز طریقہ سے انجام دیا جا سکتا ہے انجام دیں۔ اس دن کو عبادت اور اطاعت کا دن قرار دیں۔
اس دن برادران مومن کو کھانا کھلانا، انھیں خوش کرنا، اپنے اہل و عیال کے نان و نفقہ اور نئے کپڑے میں وسعت دینا مستحب ہے اور اس دن اللہ تعالی کی عبادت کرنا، اس کا شکر بجالانا مستحب ہے۔ یہ دن غموں کو دور ہونے کا دن ہے روزہ رکھنے کا نہیں ہے۔ خلاصہ یہ دن بہت عظیم و بابرکت ہے۔ کیونکہ عظیم ہے اور اس دن کی اتنی فضیلت کیوں ہے؟ شاید اس وجہ سے ہو کہ آج کا دن ہمارے اور آپ کے امام زمانہ (عج) کی تاج پوشی اور امامت کا پہلا دن ہے۔ اس دن عالم بشریت کے مصلح کل کی امامت کا دن ہے۔ اس دن آل محمد (ص) کی آخری فرد کی خلافت الہیہ کے منصب پر فائز ہونے کا دن ہے۔ ہم خوشی اس وجہ سے مناتے ہیں اور جتنی مناتے ہیں کم ہے کیونکہ آج کے دن اسے امامت ملی ہے جو عالم انسانیت کو ہلاکت و تباہی سے نجات دے گا، آج اس ذات اعلی صفات کی خلافت کی جلوہ گری ہوئی ہے جو دنیا سے ظلم و جور کو اسی طرح ختم کردے گا جس طرح وہ ظلم و جور سے بھی ہوگی۔
ہماری خوشی کا سبب یہ ہے نہ کہ بعض ناداں اور بے خبر افراد جو خیال کرتے ہیں کہ شیعہ آج کے دن یہ کرتے اور وہ کرتے ہیں۔ یہ سب شیعوں پر تہمت اور الزام ہے۔ اس کا حقیقت سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں ہے۔ ہم ایسے تمام لوگوں کو دعوت فکر و عمل دیتے ہیں اور انہیں اپنی محفلوں اور مجلسوں میں شرکت کرنے کی دعوت دیتے ہیں کہ وہ آئیں اور آکر معارف اہلبیت اطہار (ع) کے خوشہ چینوں میں شامل ہوں، علوم و معارف کے دسترخوان سے فیضیاب ہوں اور اپنے جاہلانہ افکار و نظریات اور باطل و بیہودہ خیالات اور تعصبات کی اصلاح کریں۔ یہ اہلبیت پیغمبر (ص) کا دسترخوان ہے۔ یہ رسولخدا (ص) کے کلمہ گویوں کی بزم ہے۔ یہ ایمان اور قرآن والوں کی محفل ہے۔ ہم سے قریب ہوں اور تعصب کی عینک اتار کر حقائق مشاہدہ کریں اور تہمت اور افتراپردازی کے گناہوں سے باز آئیں۔ اسی میں امت مسلمہ کی بھلائی ہے۔ شیعہ ایسا کچھ نہیں کرتے جو ہمارے مسلمان بھائی ان پر الزام تراشی اور بہتان ترازی کرتے ہیں۔
شیعہ اپنے امام زمانہ (عج) اور عالم انسانیت کے منجی حضرت امام حسن عسکری (ع) کے فرزند ارجمند حضرت امام مہدی (ع) کی تاج پوشی اور امامت کا پہلا دن ہے۔ شیعہ وہی کرتے ہیں جو محمد (ص) و آل محمد (ع) نے خوشی اور غم کے موقع پر کرنے کو کہا ہے کہ همارے غم میں غم مناؤ اور ہماری خوشی میں خوشی۔ ہم اس نعمت عظمی کے ملنے پر خوشی مناتے ہیں اور منانا بھی چاہیئے۔ یہی وہ پہلے معصوم امام ہیں جن کا نام رسولخدا (ص) کے نام پر ہے اور کنیت آپ (ص) کی کنیت ہے۔ کیا یہ خوشی کا مقام نہیں ہے کہ اہلبیت عصمت و طہارت (ع) کی وہ پہلی فرد ہے جو 5/ سال کی عمر میں منصب امامت پر فائز ہوتی ہے؟ اس منصب کی تمنا حضرت ابراہیم (ع) نے کی اور دیگر بزرگان دین بھی کرتے رہے۔ جناب ابراہیم (ع) نے مقام امامت پانے کے بعد اس مقام کی اپنے ذریت کے لئے بھی تمنا کی۔ مقام امامت حضرت ابراہیم (ع) سے پوچھیئے۔ حضرت ابراہیم خلیل اللہ (ع) اس مقام کی آرزو کیوں نہ کریں ۔ یہ مقام اللہ کے نزدیک تمام مقامات سے بلند و بالا اور اس کی شان اعلی ہے۔
لہذا دوستو! ہم صرف اپنے امام زمانہ (عج) کی امامت کی خوشی مناتے، ایک دوسرے کو مبارک پیش کرتے، عمدہ اور لذیذ غذائیں پکاتے اور خود بھی کھاتے اور دوسروں کو بھی کھلاتے ہیں۔ حقیقت کو سمجھنے کے لئے دیدہ انصاف کو کھلا رکھنے کی ضرورت ہے۔ منصف مزاجی درکار ہے، عادلانہ افکار و نظریات چاہیئے۔ امام خمینی (رح) فرماتے ہیں:
"یہ سب ایام اللہ ہیں۔ ہمیں ایام اللہ کی آمد پر ان کے تقاضوں کو پورا کرنا چاہیئے، ان کی قدر دانی کرنی چاہیئے۔ ان ایام اللہ کی برکتوں اور لامتناہی فیوضات سے بہرہ مند ہو کر انسان بنیں اور دوسروں کو بھی انسانیت کی دعوت دیں۔"