انسانیت اور آدمیت کے آغاز سے ہی ایک عظم نجات بخش ہستی اور ایک منجی عالم کا عقیدہ چلا آرہا ہے اور اس عقیدہ میں خاص بات یہ ہی کہ وہ منجی عالم اپنے ظہور کے بعد تاریخ بشریت کی آخری حد تک عدل و انصاف قائم کرے گا اور زمانہ میں سکون و اطمینان پیدا کرے اور ظالموں و ستمگروں کو کرہ ارض سے نابود کرکے عدل و انصاف کے محور پر حکومت کی بنیاد ڈالے گا۔
یہ ایک ایسا عقیدہ هے کہ ادیان ابراہیمی کے ماننے والے اور باقی اقوام اور ملل کی بھاری اکثریت اس پر عقیدہ رکھتی تھی اور رکھتی ہے، یہودی بھی عیسائی کی طرح ایک منجی کے ظہور کا عقیدہ رکھتے ہیں۔ غرض دنیا کی ہر قوم اور ملت ایک منجی عالم اور انسانیت کے نجات دینے والے کے ظہور کا عقیدہ رکھتی ہے۔
مشہور انگریز فلسفی، برٹرانڈ راسل کہتا ہے: دینا ایک ایسے مصلح کے انتظار میں ہی جو سب کو ایک پرچم تلے ایک نعرہ میں جمع کردے گا۔
تھیوری پیش کرنے والے دوسرا مفکر آلبرٹ ائنشٹاین اس کے بارے میں کہتا ہے: اس دن کی آمد میں زیادہ دیر نہیں ہے جس میں دنیا کے گوشہ و کنار اور چپہ چپہ پر صلح و آشتی اور امن و سلامتی کی حکومت ہوگی اور سارے انسانی اعضاء ایک دوسرے کے دوست اور بھائی ہوں گے۔
انگلینڈ مشہور فلسفی برنارڈ شاؤ اپنی کتاب "بشر اور ابر مرد" میں ایک مصلح کے ظہور کی بشارت دیتا ہے۔
اس سلسلہ میں استاد عباس محمد العقاد لکھتے ہیں: میری نظر میں شاؤ کے نزدیک ایک ابر مرد یعنی سب سے قوی انسان کا عقیدہ صرف مفروضہ نہیں ہے اور نہ ہی کوئی انہونی امر هے۔ شاؤ کے نزدیک انسان کا ایک ایسے مصلح کی دعا کرنا ایک ثابت اور خالص واقعیت اور حقیقت سے وجود میں آتا ہے۔
اس کے علاوہ مختلف اسلامی مذاہب اور گوناگوں فرقے اپنے اعتقادی فرق کے باوجود رسولخدا (ص) کی بشارت کی روشنی میں آخر زمانہ میں امام مہدی (عج) کے ظہور سے متعلق راسخ اور مضبوط عقیدہ رکھتے ہیں اور بہت سارے علمائے اہلسنت نے تیسری صدی ہجری سے اج تک اسی معنی کو صراحت کے ساتھ بیان کیا ہے اور دلچسپ نیز قابل غور بات یہ ہے کہ ان کے فقہائے فتوی بھی دیا ہے اور حضرت مہدی (عج) کے ظہور کا انکار کرنے والے مسلمانوں کو واجب القتل بھی جانا ہے اور ایک دوسرے گروہ نے اس طرح لکھا ہے: انکار کرنے والوں کو دردناک تازیانوں سے حقارت اور سرزنش کے ساتھ تادیب کرنا چاہئیے؛ ان کے نظریہ کی روسے یہ ہی کہ ایسی لوگ ذلیل و خوار کئے جائیں اور راہ حق و صواب کی طرف پلٹ آئیں۔
اب ہم عقل و خرد کے مالک انسانوں اور دین و شریعت کے متوالے اور احکام خداوندی کی پابندی کرنی والے افراد کو غور و خوض کی دعوت دی جاتی ہے کہ اب خود ہی ملاحظہ فرمائیں کہ دنیا میں کوئی قوم اور ملت ایسی نہیں جن کے اندر یہ عقیدہ نہ پایا جاتا ہو اور سب بھی انتظار کررہے ہیں اور سب اصلاح کرنے والے اور امن و امان بحال کرنے والے کا انتظار کررہے هیں۔
لہذا ہر ایک کی نظر میں کوئی ایسا ہی شخص ہوگا جو الہی اور سیاسی اور سماجی تمام نمائندگیوں کا مالک ہوگا اور اس کی بصیرت اور طاقت سب سے زیادہ ہوگی۔ ایسے میں ہم انتظار کرنے والوں کا کیا فریضہ ہے اور ہماری کیا ذمہ داری ہے۔ یقینا ہماری ذمہ داری تو یہی ہے کہ ہم خود کو اس منجی موعود کی فکروں کی سانچے میں ڈھالیں اور خود ایک اچھا اور بہترین انسان بنانے کی کوشش کریں اور جن برائیوں اور ناگفتہ حالات کی وجہ سے انتظار کررہے ہیں اس طرح کے حالات پیدا نہ ہونے دیں۔
خدا ہم سب کو مہدی موعود (عج) کا سچا منتظر اور خادم قرار دے۔ آمین۔