امام خمینی (رح) بعثت کے واقعہ کو انسانی تاریخ میں ایک بے مثال واقعہ مانتے ہوئے فرماتے ہیں:
اول سے لے کر قیامت تک رسول اکرم صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کی بعثت کے دن سے عظیم کوئی دن نہیں ہے کیوں کہ اس واقعہ سے بڑا کوئی واقعہ نہیں ہے اس دنیا میں بہت سارے واقعہ رونما ہوے ہیں جن میں سے انبیاء کی بعثت، اولوالعزم انبیاء کی بعثت لیکن پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کی بعثت سے بڑا کوئی واقعہ رونما نہیں ہوا اور نہ ہی ہو گا کیوں کے دنیا میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ آلہ وسلم سے بہتر کوئی نہیں ہے۔
خدا وند متعال کی ذات کے علاوہ بعثت سے بڑا کوئی واقعہ نہیں ہے ایسی بعثت جس میں خاتم الانبیاء کو مبعوث کیا گیا ہو اور اس دنیا کی سب سے بڑی شخصیت اور سب سے بڑے الہی قوانین ایک ہی دن میں رونما ہوئے ہیں اور ان دونوں نے اس دن کوعظیم بنا دیا اور قیامت تک اتنا عظیم دن ہمارے لئے کوئی دن نہیں ہے۔
بعثت کا دن وہ دن ہے جس دن خدائے متعال نے ایک کامل ذات کو جو اُس سے کامل نہیں ہے کو تمام موجودات کو کامل کرنے اور انسانوں کو جو ابتداء سے ضعیف اور ناقص ہے لیکن ترقی کے قابل ہے تانکہ انسانوں کو ترقی دے انسان کے طول وعرض تمام دنیا کے طول عرض ہیں اور اسلام انسان کی ہر پہلوں میں تربیت کے لئے ہے۔
مختلف نظریات کی بنا پر صاحب نظروں کی درمیان اختلاف ہے اور اسلام کی مختلف تشریحات کی گئی ہیں اور ان میں سے کوئی بھی اس حد تک نہیں پہنچا کہ اسلام کو پہچانے یا انسان کو پہچانے یا رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو پہچانے یا اس دنیا کو پہچانے سارے ایک خاص سطح تک محدود ہیں۔
شاہد ممکن ہے بہت سارے لوگ یہ خیال کریں کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم یا دوسرے انبیاء کو خداوند متعال نے لوگوں کو ظلم اور نا انصافی سے نجات دلانے کے لئے مبعوث کیا ہے اور ان کا کام یہ ہیکہ معاشرے اور انسانوں میں عدالت قائم کریں ممکن ہے بعض لوگ جو اقتصاد کو ایک مہم مسئلہ مانتے ہیں اور یہ فکر کریں کہ انبیاء کو اسی ہدف کے لئے مبعوث کیا گیا ہے تاںکہ لوگوں کی بھوک ختم کر سکیں اور اُن کو سہولیات دے سکیں۔
ممکن ہے جو لوگ صوفیانہ خیالات رکھتے ہیں وہ یہ فکر کریں کہ انبیاء صرف الہی تعلیمات کو بڑھانے کے لئے مبعوث کیا گیا ہے روشنفکر ایک طرح سے فکر کریں مومنین ایک دوسرے نقطہ نظریہ سے فکر کریں، فیلسوف، فقیہہ اور عام آدمی ہر کوئی الگ طریقہ سے فکر کرتا ہے لیکن اس حقیقت تک پہچنے سےقاصر ہیں اس روایت میں فرمایا گیا ہے من عرف نفسہ فقد عرف ربہ، یہ روایت ہم کو سمجھاتی ہے کے انسان ایک ایسی مخلوق اگر اس کو پہچان لیا جاے توخدا کی شناخت بھی ممکن ہے کوئی بھی انسان رب کو نہیں پہچان سکتا مگر یہ کہ اپنے آپکو پہچانے خودشناسی کا نتیجہ خدا شناسی ہے جو صرف اولیاء الہی کو حاصل ہوتی ہے۔
ہر گز ایسا نہیں سوچنا چاہیے کہ اسلام اس دنیا میں حکومت کرنے کے لئے آیا ہے یا ان لوگوں کو آخرت کی طرف توجہ دلانے کے لئے آیا ہے یا آیا ہے تانکہ لوگوں کو الہی تعلیمات کی معلومات دے سکے کسی بھی ایک چیز میں محدود کرنا سچائی اور حقیقت کے خلاف ہے انسان ایک لا محدود مخلوق ہے اور اسکی تربیت کرنے والا قرآن بھی لا محدود ہے وہ نہ ہی عالم غیب میں محدود ہے بلکہ وہ ہر چیز میں اور ہر جگہ ہے۔