رسول خدا (ص) امام خمینی (رح) کے اقوال کی روشنی میں

رسول خدا (ص) امام خمینی (رح) کے اقوال کی روشنی میں

اصل رسول اللہ ہیں

رسول اکرم (ص) کی ذاتی زندگی کے بارے میں امام خمینی (رح) کے اشارات کلیدی اور قیمتی نکات کے حامل ہیں:

آپ نے مختلف مناسبتوں سے اپنی تقریروں میں حضرت محمد (ص) کی شخصیت کی طرف اشارہ کیا اور اس کے بعض پہلووں کو مخاطبین کے لئے روشن کیا ہے۔ جماران خبررساں ایجنسی، رسول خدا کے روز شہادت سے متعلق، امام خمینی (رح) کے نظریات آپ محترم قارئین کے حوالہ کررہی ہے:

 

رسول خدا (ص) کا عالمین کے لئے رحمت ہونا

پیغمبر (ص) جس طرح مومنین کے لئے رحمت اور ہمدرد تھے، کفار کےلئے بھی تھے، کفار کے لئے ہمدرد تھے یعنی آپ پر اس بات کا اثر ہوتا تھا کہ یہ کفار اپنے کفر پر باقی رہیں اور آخر کار جہنم کے حقدار ہوں۔ ان کے لئے ہمدردی کرتے تھے۔ آپ کی دعوت ان کافروں کو نجات دینے کے لئے تھی، ان گنہکاروں کو۔ خداوند عالم ارشاد فرماتا ہے: اس کی مثال یہ ہے کہ تم خود کو ہلاک کرنا چاہتے ہو ان لوگوں کے لئے جو ایمان نہیں لاتے ہیں۔ اسی طرح آپ (ص) متاثر ہوتے تھے کہ یہ لوگ ایمان کیوں نہیں لاتے، یہ لوگ نجات حاصل کیوں نہیں کرتے۔ جب ایک گروہ کو کسی ایک جنگ میں (تاریخ میں موجود ہے) ان کفار کو ہاتھ پاؤں باندھ کر لائے اور کہنے لگیں ہم انھیں زنجیر کے ساتھ جنت میں لے جائیں گے۔ اب ہمیں اس طرح لا کر ہدایت کرنا چاہتے ۔ نور ہدایت تھے، جس طرح مومنین کے لئے صلح و آشتی رکھتے تھے اسی طرح دوسروں کے ساتھ بھی تھے جز ان  لوگوں کے جو کینسر کا غدہ تھے کہ اس کا جڑ سے خاتمہ ہونا چاہیئے اور معاشرہ سے نابود ہونا چاہیئے۔

(صحیفہ امام، ج 8، ص 379)

 

رسول خدا (ص) کے حالات

رسول خدا (ص) کے لئے جو حالات پیدا ہوئے ہیں وہ کسی موجودات کے لئے پیدا نہیں ہوئے ہیں۔ چنانچہ مشہور حدیث میں ہے کہ: "لی مع اللہ حال لایسعہ ملک مقرب و لانبی مرسل" ؛ خدا کے ساتھ میرا ایسا معاملہ ہے جو نہ کسی ملک مقرب کو حاصل ہے اور نہ نبی مرسل کو ۔

(شرح چہل حدیث، ص 437)

 

قلبی توجہ

اس کی مبدا نور کی جانب قلبی توجہ اور اس کے ماسوا سے دوری نے انھیں خدا کی مہمانی کے قابل بنایا اس لئے کہ قرآن مجموعی طور پر آپ کے قلب مبارک پر نازل ہواہے۔

(صحیفہ امام، ج 17، ص 490)

 

عدالت کا تحقق

اسلام "قانون" پر آلہ کے عنوان سےنظر کرتا ہے یعنی اسے معاشرہ میں عدالت کے محقق ہونے کا آلہ اور وسیلہ جانتا ہے۔ انسان کی اخلاقی، اعتقادی اور تزکیہ باطن کا مسیلہ جانتا ہے۔ قانون آراستہ انسان کی پرورش کرنے کی غرض سے عادلانہ اجتماعی نظم برقرار کرنے اور اس کے اجرا کے لئے ہے۔ انبیاء کا اہم ترین فریضہ احکام کا اجرا تھا اور نظارت اور حکومت کی بات مد نظر ہے.....

(ولایت فقیہ، ص 73)

 

مدینہ فاضلہ

پیغمبر (ص) نے ایک عادلانہ حکومت کی تشکیل جس کی بنیاد آسمانی قوانی پر استوار تھی اور 20/ اور کچھ سال کی طاقت فرسا کوششوں، الہی منطقی گفتار، عادلانہ سیرت و کردار اور عظیم اخلاق کے ساتھ آسمانی اور زمینی طاقتوں اور دلوں اور خدائی پاکیزہ راہ میں جانثاری کا جذبہ رکھنے والے مجاہدوں کی مدد سے ایک اساسی تشکیلات قائم کرنے میں کامیاب ہوئے جس کی بنیاد عدالت اور توحید پر قائم تھی۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں اور دنیا کی تواریخ میں پڑھا ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) زندگی کے آخری لمحہ میں توحید الہی، کلمہ توحید اور آراء و عقائد کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش سے دریغ نہیں کیا۔ یہاں تک دین ، آئین اور مدینہ فاضلہ کے نظام کی بنیاد استوار ہوگئی۔

(کشف الاسرار، ص 106)

 

بعثت رسول اکرم (ص)

لازم ہے عرض کروں کہ سراسر دہر میں ؛"ازل سے لے کر ابد تک "روز بعثت رسول اکرم(ص) سے زیادہ باشرافت کوئی دن نہیں ہے ؛اس لئے کہ تاریخ بشریت میں اس سے برا کوئی   واقعہ رونما نہیں ہوا ہے ۔دنیا میں بہت بڑے بڑے واقعات وحوادث رونما ہوئے ہیں ،بڑے بڑے نبیوں کی بعثت ،انبیاء او لو العزم کی بعثت اور بہت سارے بڑے بڑے حوادث و وا قعات ،لیکن بعثت رسول اکرم (ص) سے بڑا کوئی بھی حادثہ اور واقعہ تاریخ بشریت میں رونما نہیں ہوا ہے اور اس کے واقع ہونے کا کوئی تصور بھی نہیں ہے ؛اس لئے کہ ذات مقدّس حق تعالیٰ کے علاوہ عالم میں رسول اکرم (ص) سے برا کوئی وجود نہیں ہے اور آپ کی بعثت سے بڑا کوئی حادثہ اور واقعہ نہیں ہے ؛ایسی بعثت جو رسول ختمی مرتبت کی بعثت ہے ،عالم امکان کی سب سے عظیم  شخصیت اور سب سے بڑے قانون الہی کی بعثت ہے ،اور یہ واقعہ ایک ایسے دن رونما ہوا ہے اور اس دن کو بڑا اور باشرف بناتا ہے  ۔ایسا دن ازل سے ابدتک  نہ ہے اور نہ ہوگا ،لہذا اس دن کی تمام مسلمانوں اور دنیا کے تمام کمزوراور پچھڑے ہوئے  لوگوں کو تبریک و تہنیت عرض کرتا ہوں ۔

(صحیفہ امام، ج 12، ص 420)

 

وحی

رسول اللہ(ص) پر جو وحی نازل ہوتی تھی، کسی کو سمجھ نہ آتی کہ یہ کیا ہے، اور وحی کیا ہوتی ہے؟ اور وحی کی حقیقت کیا ہے؟ اور قرآن جو قلب رسول اللہ(ص)  پر نازل ہوتا ہے ،کیسے ایک دفعہ ہی قلب رسول اللہؐ پر نازل ہوتا ہے۔ یہی تیس پاروں  کا قرآن کیسے ایک مرتبہ ہی قلب پر وارد ہوا ہے اور وہ بھی ان معمولی دلوں  پر، لیکن قلب ایک اور داستان او رایک علیحدہ وادی ہے او رقرآن ایک حقیقت ہے اور یہ حقیقت بھی قلب میں  وارد ہوتی ہے۔

(تفسیر سوره حمد، ص 161)

 

اسم اعظم

وہ حضرات جو معرفت کے ذریعہ اوپر جاتے ہیں ، یہاں   تک کہ ذات حق مکمل طور پر۔ البتہ خود ذات نہیں ، بلکہ اس کا جلوہ۔ ان کے دلوں  پر جلوہ فگن ہوتی ہے۔ نہ کہ ان ہمارے دلوں  پر ، بلکہ اس قلب پر جس میں  قرآن وارد ہوتا ہے، وہ قلب جو مبداء وحی ہے، وہ قلب جس پر جبرئیل (وحی لے کر) نازل ہوتا ہے، ایسے قلب میں  ایک ایسا جلوہ ہوتا ہے جس میں  تمام جلوے موجود ہوتے ہیں ۔ وہ خود بھی اسم اعظم ہے اور اسم اعظم کے جلوے سے بھی متجلی ہے۔ اسم اعظم وہ خود ہے ’’نَحْنُ الاسْمَائُ الْحُسْنیٰ‘‘  اور اسم اعظم خود رسول اللہ ہے۔ یہ مقام تجلی میں  اسماء میں  سے اعظم ہے۔

(تفسیر سورہ حمد، ص 164)

 

ختم نبوت

حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا پاک و پاکیزہ دل ہے جس پر حق تعالیٰ نے تمام شئون ذاتی و صفاتی واسمائی و افعالی کے ساتھ تجلی فرمائی اور جو ختم نبوت اور ولایت مطلقہ کا حامل ہے اور جو خود اکرم مخلوقات ، اعظم موجودات ، خلاصہ ہستی ، جوہرۂ وجود، عطر دار تحقق ، لبنہ اخیرہ، صاحب برزخیت کبریٰ و خلافت عظمیٰ ہیں ۔

(آداب الصلاة، ص 183)

 

ظل الله

رسول اللہ ظلّ اللہ ہیں ۔رسول کے علاوہ ،وہ لوگ جو رسول اللہ سے نزدیک ہیں ،ظلّ اللہ سے نزدیک ہیں ؛اصل رسول اللہ ہیں،وہ ظلّ اللہ ہیں۔

(صحیفہ امام، ج 6، ص 338)

 

قرآن کی حکومت

رسول اکرم(ص) کا مقصد یہ نہیں تھا کہ مشرکین مکّہ کا صفایا کردیں ،یا مشرکین جزیرۃ العرب کا صفایا کردیں ؛مقصد یہ تھا دین اسلام کو منتشر کریں ؛اور حکومت ،قرآن کی حکومت ہو ؛اسلام کی حکومت ہو ۔وہ لوگ چونکہ اسلامی حکومت کے تحقق کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ تھے ان سے جنگ و جدال کی نوبت آئی ۔وہ اسلامی حکومت سے ٹکراتے تھے ،یہ مقابلہ کرتے تھے ۔پیغمبر اکرم(ص) نے جو اتنی جنگیں لڑی ہیں اسی بات کے لئے لڑی ہیں کہ وہ  رکاوٹیں جو الہی مقصد کی راہ میں ،اس اعلی مقصد کی راہ میں ہیں ان رکاوٹوں کو ختم کردیں اور وہ ارفع و اعلی مقصد اسلامی حکومت ،الہی حکومت اور قرآنی حکومت کی تحکیم سے عبارت ہے ،یہ ساری جنگیں اسی مقصد کے لئے کی گئی ہیں ۔اس طرح سے کہ اگر معارض نہ ہوتے معلوم نہیں نہ تھا کہ کوئی جنگ واقع ہو ۔چونکہ رکاوٹیں کھڑی کرتے تھے اور اسلامی حکومت کے استقرار کو برداشت نہیں کرپارہے تھے ،جنگ کی نوبت آئی ۔

ای میل کریں