عزاداری کا جواز از روئے قرآن

عزاداری کا جواز از روئے قرآن

عزاداری، حق کا ساتھ دینے کا نام ہے، عزاداری بو لہبی سے نفرت کا نام ہے؛ اس سے نہ صرف حسین (ع) کی یاد تازہ ہوجاتی ہے، بلکہ یزیدی نظریات کا بھی ابطال اور اسلام کی روح کو ایک نیا ولولہ مل جاتا ہے۔

عزاداری، حق کا ساتھ دینے کا نام ہے، عزاداری بو لہبی سے نفرت کا نام ہے؛ اس سے نہ صرف حسین (ع) کی یاد تازہ ہوجاتی ہے، بلکہ یزیدی نظریات کا بھی ابطال اور اسلام کی روح کو ایک نیا ولولہ مل جاتا ہے۔

تعزیت یا پُرسہ اس فطری عمل کا نام ہے جہاں عموما جانی نقصان ہونے پر دوست، احباب اور رشتہ دار مرحومین کے لواحقین کو انکے سوگ میں شامل ہو کر انکے رنج و الم میں برابر کی حصہ داری ڈالتے ہیں؛ کبھی آہ و بُکا کرکے ساتھ دیا جاتا ہے تو کبھی تسلیت کے الفاظ ہے لیکن یہ دکھ درد کی سانجھ صرف موت پر ہی نہیں بلکہ اور مواقع پر بھی ادا کی جاتی ہے۔

عزا، ایک لحاظ سے انسانی فطرت کا ایسا عمل ہے جس سے شاید ہی کوئی پوری طرح خالی ہو، کسی انجانے شخص کے درد و الم جان کر بھی انسانی دل بھر آتا ہے اور یہی جذبہ ہمارے ما بین ایک دوسرے کی مدد اور دکھ بانٹنے کا سبب بنتا ہے۔ 

آج فلسطین پر ہونے والے ظلم کو سن کر ہم یورپ اور آسٹریلیا میں بھی احتجاجی ریلیاں برآمد کرتے ہیں۔ حال آنکہ، فلسطین و کشمیر میں، ہم میں سے اکثر کے قربت دار، عزیز، دوست یا براہ راست جان پہچان والے نہ ہونے کے برابر ہونگے، لیکن ایک انسانی جذبہ ہے جو ہمیں انکے خلاف ظلم پر خاموش نہیں رہنے دیتا، بلکہ بطور مسلمان، ہم پر تو دوسرے مسلمان کی نصرت لازمی ہے، لیکن یہاں تو غیر مسلم ان مظالم پر ہم سے بڑھ کر مدد اور استغاثے بلند کرتے ہیں۔

کوئی چیختا ہے تو کوئی درد سے کلیجہ تھام لیتا ہے، کوئی سینے پر پتھر رکھ لیتا ہے تو کوئی سینہ پیٹ لیتا ہے، کوئی سر جھکا کر چلتا ہے تو کوئی اپنا بند قبا چاک کر لیتا ہے؛ یہ سب انسانی فطرت اور نفسیات کے عمل ہیں جو ہر شخص کی طبیعت اور مزاج کے حساب سے مختلف ہیں۔

عزاداری ایک خالصتا اندرونی جذبہ ہے جو کہ بے ریاء احساسات کے ساتھ مختلف مقامات پر مختلف اطوار سے اظہار کرتا ہے۔ ہم نے پاکستان میں دیکھا ہےکہ مزدور اور کلرک حضرات اپنے آجر کیطرف سے حقوق کی پامالی پر بازؤں پر سیاہ پٹیاں باندھ کر، سینے پیٹتے ہوئے اپنے دکھ سے عوام کو آگاہ بھی کرتے ہیں اور ان سے توقع کرتے ہیں کہ لوگ ان کے اوپر کئے جانے والے اس ظلم پر آواز اٹھائیں اور انکے ساتھ اس درد کو سانجھا بنا لیں، گویا عزادارای نہ صرف درد و الم میں ساتھ دینے کا نام ہے، بلکہ اپنے درد سے عوام کو آگاہ کرنے کے عمل اور ایک با ضابطہ احتجاج کا نام بھی ہے۔

عزاداری میں گو کہ بالعموم تو دکھ درد کا احساس ایک بنیادی جوہر ہے، لیکن خاص مقامات پر عزاداری میں ظلم کا بیان اور ظالم کا پردہ چاک کرنے کی سعی بھی شامل ہوتی ہے۔ ظلم اور ظالم کا پردہ چاک کرنے کا مدعا، عامۃ الناس کو ظالم کے شر سے آگاہ کرنا، اپنے لئے ہمدرد تلاش کرنا، اپنی کمزوری کو جمعیت و قوت میں بدلنا اور ہمنوا تلاش کرکے انتقام کی سعی کرنا ہیں۔

بڑی بڑی سیاسی تحریکیں جیسےکہ انقلاب فرانس اور انقلاب ایران کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں، انکی کامیابی کی بنیاد لوگوں پر ہونے والے ظلم کا بیان اور احتجاج کے ذریعے عوامی قوت کا اجتماع ہی تھے، لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ عزاداری کے سبب سے ایسے انقلابات برپا کئے جاتے ہیں جن سے عوام دوست اور معتدل معاشرے جنم لے سکیں۔ اب عزاداری صرف ایک پُرسہ داری نہیں، بلکہ ایک سیاسی تحریک بھی ہے اور ظلم کے خلاف کلمہ حق بھی۔

عزاداری محبت کا اظہار بھی ہے، درد کی سانجھ بھی اور عزاداری کو ہم ظلم کے خلاف جہاد بھی کہہ سکتے ہیں اور یہ باطل کی راہ کی دیوار ہے۔

قرآن اور حدیث میں ایک مسلمہ اصول یہ بھی ہےکہ حضور (ص) کے سامنے کوئی کام کیا گیا اور آپ نے اس سے بیزاری نہ فرمائی یا منع نہ کیا، تو اس کو بھی روا جانا جاتا ہے۔ صحاح ستہ میں اس اصول کو حدیث تقریری کہا جاتا ہے۔ یہی اصول قرآن کےلئے بھی ہےکہ اگر قرآن کسی کے کسی عمل کا ذکر کرے اور اس کےلئے ممانعت یا ناپسندیدگی کا اظہار نہ کرے تو اسے جائز عمل مانا جاتا ہے اور اگر قرآن میں ناپسندیدگی کا اظہار آ جائے تو ایسا عمل ممنوع قرار پاتا ہے۔ جیسا کہ جناب نوح (ع) کو فرزند کےلئے نجات کی کوشش سے منع کردیا گیا تو اس اصول سے کسی بھی بے دین قرابت دار کےلئے دعائے نجات منع قرار پائی۔

جبکہ ہم جان چکے ہیں کہ عزاداری کیا ہے اور قرآن سے ہم کن اصولوں کے تحت اثبات و انکار کو اخذ کرسکتے ہیں، اب یہ ہمارے لئے آسان ہےکہ قرآن سے واضح (محکمات) آیت پیش کرکے ان اصولوں کی روشنی میں ہم عزاداری کا جواز تلاش کر سکیں؛

۱/۔ سورہ یوسف کی آیت نمبر سات میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہےکہ بے شک یوسف (ع) اور اس کے بھائیوں کی کہانی میں سوال کرنے والوں کےلئے نشانیاں موجود ہیں۔ اسی لئے ہمارے سوالِ عزا کا جواب بھی یوسف (ع) کے تذکرے سے مل جائےگا۔

اب آئیے اور دیکھئے سورہ یوسف، جہاں قرآن اس کو احسن القصص کہہ کر جناب یعقوب علیہ السلام کے رونے کا ذکر کرتا ہے۔ سورہ یوسف آیت نمبر 84 میں قرآن کہتا ہےکہ وَ قالَ يا أَسَفي عَلي يُوسُفَ وَ ابْيَضَّتْ عَيْناهُ مِنَ الْحُزْنِ فَهُوَ کَظيمٌ یعقوب (ع) نے کہا کہ ہائے ہائے یوسف اور (رو رو کر) انکی آنکھیں سفید ہو گئیں، حالآنکہ وہ صبر کرنے والے تھے؛ پھر اسی سورہ کی آیت نمبر 99 موجود ہےکہ جب یوسف (ع) کی قمیص یعقوب (ع) کی آنکھوں سے لگائی گئی تو انکی آنکھیں پھر سے دیکھنے لگیں؛ سبحان اللہ کہ یوسف (ع) کی جدائی کے الم میں اللہ کے نبی کی آنکھیں رو رو کر سفید ہو جاتی ہیں اور یوسف کی قمیص سے نبی اللہ کی آنکھیں بینا ہو جاتی ہیں!!

گویا کہ معصوم سے منسلک چیز میں اتنی قوت ہے کہ معصوم کو شفاء دے دے، اس لئے کیا ہی مشکل ہے کہ ہم ایسے خاک نشیینوں کے لئے اللہ کی نعمات اور برکات کا سبب ٹھہریں۔

پس اس بحث سے ثابت ہوا کہ مظلوم اور شہید کےلئے رونا جائز ہے، چاہے وہ زندہ ہے اور شہید کے معاملے میں سچ یہی ہےکہ گو کہ ہر شہید زندہ ہے، لیکن اس کے قربت داروں اور عزیزوں کےلئے اس کی جدائی اور مفارقت تو بہرحال، حائل ہوتی ہی ہے۔ پھر جناب یعقوب (ع) کو معلوم تھا کہ یوسف (ع) زندہ ہیں اور ان کی مصیبت کٹ کر بادشاہی میں بدل چکی ہے، اس کے باوجود ان کا گریہ و بکا جاری رہا، اسی طرح گو کہ شہید جنت میں براہ راست چلا جاتا ہے، اسکے باوجود اسکے اوپر رو کئے گئے اسی طرح ظلم کی یاد میں رونا بھی جائز ہے، جس طرح یعقوب (ع) یوسف (ع) کو روئے۔

یاد رہےکہ جناب یعقوب (ع) یوسف (ع) کو روتے بھی رہے اور اسے صبر جمیل بھی کہتے رہے، لہذا شہید کو رونا، عدم صبر کی دلیل نہیں، کیونکہ قرآن نے جو سب سے اچھی کہانی سنائی ہے، اس میں رونا، عین صبر بتایا گیا ہے۔

گو کہ قرآن کا صرف ایک حوالہ ہی اہل بصیرت کےلئے کافی ہے، لیکن عبارت کو مختصر کرتے ہوئے ہم چند مزید حوالے بھی منتقل قرطاس کئے دیتے ہیں۔

مثال کے طور پر سورہ الذاریات کی آیت نمبر 29 ملاحظہ ہو، جس میں جب فرشتے جناب ابراہیم (ع) کو فرزند کی خبر دیتے ہیں، تو ان کی زوجہ ماتھا پیٹ کر کہتی ہیں کہ ہائے! ایک بانجھ بڑھیا اب کیا بیٹا جنےگی؟ یہاں اس ماتھا پیٹنے کو قرآن نے کہیں مذموم قرار نہیں دیا اور یوں کربلا والوں کی مصیبت کے مقابلے میں ایک معمولی پریشانی پر ماتھا پیٹنا بھی جائز قرار دیا گیا ہے۔

اسی طرح قرآن، ظالم سے نفرت اور مظلوم کی دادرسی کا جذبہ پیدا کرنے کی غرض سے انبیاء ما سبق پر ہونے والے مظالم کا تذکرہ کرتا ہے اور امت مسلمہ سے توقع کرتا ہےکہ ہم مظلوم کی دادرسی کرکے ظلم کا ہاتھ روک دیں گے؛ اگر ہم ظالم کو ہزار سال بعد بھی ظالم نہ کہیں تو قرآن کے اصول کے مطابق ہم ظالم کے طرف دار ہی ٹھہرتے ہیں۔

ملاحظہ ہو سور بقرہ، آیت 91 اے رسول! بنی اسرائیل سے پوچھئےکہ اگر وہ مؤمن تھے تو انبیاء کو قتل کیوں کرتے تھے؟ یہ سوال بنی اسرائیل کی اس نسل سے پوچھا جا رہا ہے جو براہ راست قتل انبیاء میں ملوث نہیں ہے، لیکن ان کی ہمدردی اور محبت اپنے ان ہی قاتل آباء کے ساتھ تھی، اس لئے قرآن ان کو قتل انبیاء کا حصہ دار ٹھہرا رہا ہے۔

در اصل قرآن بھی مظلوم کےلئے حمایت کی تلاش میں مصروف ہے اور ہم سے ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کا تقاضہ کرتا ہے۔ یہ ہائے یوسف!! ہائے میری امت!! ہائے افسوس بنی آدم!! سب، ہائے حسین ہی کے تو ہم وزن کلمات ہیں۔ جب عام انسان کے اس کی اپنی غلطیوں کے ہاتھوں انجام پر ہائے انسان کہا جا سکتا ہے تو پھر امت کے ہاتھوں بے جرم و خطا معصوم نبی زادے کے دکھ میں "ہائے حسین"(ع) کہنا کیوں مشکل ہے؟!

دیکھیں قرآن کہتا ہےکہ لن تجد لسنة اللہ تبدیلا (اللہ کے طریقہ کار کو تبدیل ہوا کبھی نہ پاؤ گے، سورہ احزاب آیت نمبر 62، سورہ فتح آیت نمبر 23)۔ قرآن ہمیں اللہ کی سنت بتا رہا ہےکہ وہ اللہ کی راہ میں تکلیفیں اٹھانے والوں کا ذکر امت مسلمہ کو سنا رہا ہے، ان کے چلے ہوئے راستوں پر ہمارے لئے حج کا حکم نافذ کر رہا ہے، اسمٰعیل (ع) کے قربانی کےلئے خود کو پیش کر دینے کے عمل پر ہم سے ہر سال قربانیاں دلا رہا ہےکہ کہیں اللہ کی راہ میں اٹھائی گئی تکلیفیں ہمارے دلوں سے محو نہ ہو جائیں تو کیا اللہ یہ نہیں چاہےگا کہ ہم رسول اللہ (ص) کے خاندان کیطرف سے اسکی راہ میں اٹھائی گئی تکلیفوں کی یاد مناتے رہیں؟ ان مصائب کو فراموش کردینا، اللہ کی سنت سے انحراف ہی تو ہے...

اب اگر ہمیں رسول اللہ (ص) سے واقعی محبت ہے اور قرآن کی رو سے ہمیں رسول (ص) کا غم اپنے غم پر معتبر رکھنا چاہئے تو ایسی صورت میں کیا ہمارا فریضہ نہیں بنتا کہ جب رسول اللہ (ص) غمگین ہوں تو ہم بھی صف عزا پر کم از کم اتنا پرسہ تو دے دیں جو اہل محلہ ایک دوسرے کو دیا کرتے ہیں... امام حسین (ع) کی عزاداری ہم پر اس لئے بھی واجب ہےکہ یہ رسول اللہ (ص) سے محبت کا پیمانہ ہے اور اس لئے بھی کہ حق کا ساتھ اور ظلم کی مخالفت، ہم پر واجب ہے... اس سے نہ صرف حسین (ع) کی یاد تازہ ہو جاتی ہے، بلکہ یزیدی نظریات کا بھی ابطال ہو جاتا ہے اور یوں ہر بار عزاداری حسین (ع) سے اسلام کی روح کو ایک نیا ولولہ مل جاتا ہے...

عزاداری حق کا ساتھ دینے کا نام ہے، عزاداری بو لہبی سے نفرت کا نام ہے، عزاداری الٰہیت کی تصدیق کا نام ہے اور عزاداری ابلیسیت کے خلاف ڈھال کا نام ہے۔ عزاداری اللہ کے دشمنوں سے بدلہ لینے کی تحریک کا نام ہے اور باطل کے ہاتھ کاٹنے والے انقلاب کا نام ہے...

www.aalmiakhbar.com

ای میل کریں