فتنہ انگیز لوگ، عوام کے عقائد کو منتشر اور راہ حق سے ہٹانے والے، ہمیشہ دنیا میں رہے ہیں نیز خارجی فکر تو ہر صدی میں موجود رہی ہے۔
اگر پچاس سال پیچھے چلے جائیں تو ہمارے ذہن میں زمانہ ماضی کی کچھ چیزیں ابھی تک ثبت ہوں گی کہ کوئی علاقہ، گوشہ، خطہ ایسا نہ تھا کہ جب محرم کے ایام آتے یا شب عاشورا آتی تو ہر مسجد، ہر گلی و کوچہ، ہر جگہ ذکرِ امام حسین علیہ السلام کی محافل نہ ہوتی ہوں؛ شہادت امام حسین (ع) کے جلسے ہوتے، اہلسنت اپنے عقیدہ و مسلک اور طور طریقے کے مطابق اور اہل تشیع اپنے عقیدہ و مسلک اور روایت کے مطابق ان ایام کو مناتے۔
اہل تشیع تو بدستور آج بھی اپنی روایت کے مطابق ان ایام کو مناتے چلے آ رہے ہیں۔ مگر بدنصیبی نے اہلسنت کے عقائد پر گرد ڈال دی۔ جس ذوق و شوق اور رغبت و محبت سے اہلسنت و الجماعت کے ہاں کثرت سے ذکر حسین علیہ السلام کا اہتمام ہوتا تھا، اب وہ جوش و خروش نہیں رہی۔
بدقسمتی سے پچھلے سالوں کے اندر اس چیز کو فروغ دیا گیا کہ جو ماہ محرم میں یا شب عاشور کو شہادت حضرت امام حسین علیہ السلام کی مجلس یا ذکر کرے تو گویا وہ شیعہ ہے یا اس کے اندر تشیع ہے!! یقیناً یہ کہنے والے فتنہ پرور لوگ ہیں۔ اس سوچ کو فروغ دینے والے ہرگز اہلسنت نہیں، وہ خوارج المذہب ہیں۔ انہوں نے اہلسنت کے عقائد کو پراگندہ کرنے اور اِن کے دلوں سے حُب رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ اور حُب اہلبیت علیہم السلام نکالنے کی قسم کھا رکھی ہے؛ ذکر حسین (ع) کو صرف اہل تشیع کے کھاتے میں ڈال رکھا ہےکہ یہ ان کا کام ہے اور اگر اہلسنت، ذکر حسین بن علی علیہ السلام کریں گے تو گویا وہ شیعہ ہیں!!
افسوس! لوگوں کے اندر اتنی اخلاقی ایمانی کمزوری آ چکی ہےکہ وہ اس تہمت کے ڈر کی وجہ سے ذکر حسین (ع) کی مجالس کا جرات کے ساتھ اہتمام نہیں کرتے حالانکہ تہمتیں جھوٹی ہوتی ہیں۔ پس لوگوں کی تہمت کے ڈر سے ہم میں سے کئی ذکر امام حسین علیہ السلام کی محافل منعقد نہیں کرتے اور نہ ان میں شریک ہوتے ہیں کہ لوگ شیعہ سمجھیں گے، فلاں مولوی یہ کہہ دےگا، شور مچ جائےگا، فلاں جماعت یہ کہہ دےگی، فلاں تحریک اور فلاں تنظیم یہ کہہ دےگی۔
یاد رکھیں! فتنہ اور شرانگیزی بپا کرنے والے، لوگوں کے عقائد کو طرح طرح کے حملے سے منتشر کرنے والے اور راہ حق سے ہٹانے والے لوگ ہمیشہ دنیا میں رہے ہیں نیز خارجی فکر تو تسلسل سے ہر صدی میں موجود رہی ہے۔ آج جن لوگوں نے مسلمانوں اور امت مسلمہ کے خلاف ہتھیار اٹھا رکھے ہیں، وہ یہی خارجی ہیں جنہوں نے امن کی راہ چھوڑ دی ہے۔ یہ حُب رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ اور حُب اہلبیت (ع) کے خلاف ایک محاذ ہے۔ اہلسنت کو فقط حُب صحابہ تک محصور کردیا ہے جبکہ اہل سنت کا تشخص یہ تھا کہ حُب اہل بیت (ع) اور حُب صحابہ (رض) دونوں کو جمع کرنا اہلسنت کے ہاں ایمان تھا۔ دونوں کو جمع رکھنا یہ اہلسنت کا امتیاز اور تشخص تھا۔ آج اہلبیت (ع) کی محبت اور مؤدت کے ذکر کو بتدریج مختلف حیلوں بہانوں سے دلوں سے نکالا جا رہا ہے؛ ہوشیار رہیں!