امام زمانہ (عج)

امام زمانہ (عج) اور دنیا میں موجود ادیان و مذاہب

کوئی اسے عیسی کہتا ہے تو کوئی رودریگرز کہتا ہے، کوئی فردوسی کوئی اکبر کوئی گوتم بدھ، کوئی وشنو کہتا ہے

شیعہ عقیدہ اور نقطہ نظر سے 12/ امام ہیں۔ لیکن یہ عقیدہ اور تصور دنیا کی ہر قوم اور ملت کے درمیان پایا جاتا ہے اور ہر فرد اور معاشرہ، دین اور مذہب اپنے اپنے عقائد و نظریات اور الفاظ و کلمات میں اس موجود مسعود کو منجی کے نام سے یاد کرتی ہے اور یہ عقیدہ رکھتی ہے کہ ایک ایسا شخص ہے جو آخر زمانہ میں آئے گا اور صفحہ گیتی سے ظلم و جور کی بساط کو لپیٹ دے گا۔ یہ عقیدہ ظلم و بربریت، حیوانیت اور درندگی، انسانیت سوز مظالم اور مصائب کا شکار سب کے یہاں پایا جاتا ہے کیونکہ دنیا اور عالم ہستی میں رہنے والی ہر موجود جبر و تشدد، غرور و خود پسندی، نفس پرستی، ہوس رانی، عیاری اور مکاری، غداری اور خیانت، فحاشی اور بے حیائی، بے ایمانی اور لادینی، نا انصافی اور باطل پرستی سے متنفر اور بیزار ہے اور اپنے اپنے عقائد اور نظریات کے اعتبار سے ایک منجی، مصلح اور نجات بخش ہادی اور رہبر کا انتظام کر رہی ہے اور اس بات کی بھی امید رکھتی ہے کہ ایک دن ایسا ضرور آئے گا جب دنیا سے ظلم و ستم مٹ جائے، باطل کا منحوس اور ناپاک وجود ختم ہوجائے گا اور ہر طرف عدل و انصاف کا بول بالا اور علم وعمل کا اجالا ہوگا اور ہر موجود سکون کا سانس لے گی نیز مکمل عیش و عشرت سے باری اور عدل و انصاف پر زندگی گزارے گی لیکن اس ہادی اور منجی بشریت کا نام کیا ہے۔

اس کے بارے میں ادیان و مکاتب کے درمیان اختلاف ہے۔ کوئی اسے عیسی کہتا ہے تو کوئی رودریگرز کہتا ہے۔ کوئی فردوسی کوئی اکبر کوئی گوتم بدھ، کوئی وشنو کہتا ہے لیکن اسلام کے ماننے والے بالخصوص شیعہ اسے "مہدی"  موعود کے نام سے جانتے ہیں اور اسی نام سے یاد کرتے اور اس کے ذکر اور یاد سے سکون بخش، سرور انگیز، لذت آمیز، روح افزا، منصفانہ، روشن اور درخشاں زندگی کا تصور رکھتے ہیں اور اسی عقیدہ کی یاد میں زندہ ہیں اور اس کی انتظار میں اپنی آنکھیں بچھائے، بے حیائی اور بے غیرتی کے خاتمہ کا انتظار کررہے ہیں اور اس وجود ذی جود کی آمد کے اشتیاق میں شب و روز دعائیں پڑھتے اور کرتے ہیں اور ہر ایک اپنے رہبر، پیشوا، امام اور ہادی کی نصرت کے لئے کوشش اور آمادگی کررہاہے اور یتیمان آل محمد (ص) کی تربیت کرنے اور ان کی روحانی غذاؤں کا بند و بست کرنے کے لئے الگ الگ عنوان سے قدم اٹھارہا ہے۔

کوئی کتاب لکھ رہا ہے تو کوئی مقالہ نگاری کررہا ہے، کوئی مضامین لکھ رہا ہے تو کوئی اپنی اور اپنے معاشرہ کی اصلاح میں مشغول ہے اور کوئی امام زمانہ (عج) کی غیبت کے متعلق ہونے والے اعتراضات کا  جواب دے رہاہے۔

خلاصہ ہر شخص اپنی حد میں کچھ نہ کچھ کررہا ہے اور کرنا بھی چاہیئے لیکن عزیزو! یہ صرف زبان اور فکر کی حد تک انتظار نہ رہے بلکہ همارے اعمال و افکار سے بھی انتظار کا مفہوم ظاہر ہو، ہمارے وجود سے امام (ع) کے اشتیاق کا مطلب روشن ہو۔ ہم زبان سے کچھ کہنے سے پہلے عمل کرکے انتظار کریں۔ یعنی صدق و صفا کی عادت ڈالیں، اس کی معاشرہ میں ترویج کریں، کذب بیانی اور دروغ گوئی سے دوری، معاملات میں خیانت اور دھوکہ دھڑی سے پرهیز، انسانیت کی ترقی اور پیشرفت کے لئے اقدامات کریں، نہ کسی پر ظلم کریں اور نہ کسی کا ظلم برداشت کریں اور نہ ہی ظلم ہوتے ہوئی دیکھ کر خاموش رہیں۔ 

نت نئے ناموں اور حسین عنوان سے دھوکہ اور فریب دینے والوں سے ہوشیار رہیں، موت اور یاد آخرت میں مشغول رہ کر شیاطین انس و جن کے دام فریب سے خود کو نجات دیں، ان کے وسوسوں اور اور دھوکوں میں نہ آئیں۔ کلمہ حق کی بلندی اور سرافرازی کے لئے قدم اٹھائیں، باطل کو رسوا اور ذلیل کریں لیکن ان سب سے اہم حق کی معرفت ہے کیونکہ امام معصوم (ع) کی حدیث کی روشنی میں :

اعرف الحق تعرف اہلہ؛ پہلے حق کی معرفت حاصل کرو صاحبان حق کو خود ہی پہچان لوگے۔

خداوند عالم ہم سب کو حق کی معرفت اور باطل گریزی کی توفیق عطا کرے۔ آمین۔

ای میل کریں