عورت

خدا کے لطیف مخلوق؛ عورت کی اہمیت

عورت تمام سعادتوں کا سرچشمہ اور تمام نیکیوں کا مبدا ہے

خداوند عالم انسانوں کو اشرف المخلوقات بنا کر دنیا میں بھیجا تا کہ وہ انسانیت کے اصول پر عمل کرکے انسان کو حقیقی معنی میں نجات دلائے۔ انسان بالخصوص عورت (دینی، جسمانی اور احساسی ظرافت اور لطافت کے لحاظ سے کہ اس کی خلقت کا لازمہ ہے) قدردانی اور احترام کی خواہاں ہے اور اسے اس کا احساس رہتا ہے۔

یہ احساس ضرورت سب سے پہلے خداوند یکتا اور اس کے بعد اللہ کے سچے نمائندوں (معصوم ہوں یا غیر معصوم) پوری ہوتی ہے۔ یہاں تک ہمارے ارد گرد رہنے والے افراد کہ کسی طرح سے ان سے رابطہ میں ہیں اس ضرورت کو پوری کرنے میں آگاہانہ تاسی اور تقلید میں موثر ہوگا؛ کیونکہ رسولخدا (ص) کی طرف سے حکم دیا گیا ہے۔ یعنی عورت کی قدردانی اور اس کی تعظیم و تکریم کا پیغمبر اکرم نے حکم دیا ہے: "جو کسی عورت کو اپنی زوجہ بنائے تو وہ اس کا اکرام اور احترام کرے۔"

معصومین (ع) نے عورتوں کی کرامت کی حفاظت کرنے اور اس کی راہ ہموار کرنے کی تاکید کی ہے۔ ائمہ معصومین (ع) کی تاکیدیں اس مورد میں عام مسلمانوں کے اقدام کرنے کا سبب ہوگا۔ اس مطلب کی طرف معارف اور دینی کتابوں کی خاص توجہ ہے۔

رسولخدا (ص) نے فرمایا: عورتوں کی وہی تعظیم و تکریم کرسکتا ہے جو خود کریم اور بزرگوار ہے اور ان کی توہیں وہی کرسکتا ہے جو خود ذلیل و خوار ہوگا۔

اسی طرح بے شمار روایات میں مسلمانوں کو اپنی عورتوں اور لڑکیوں کے ساتھ نیکی کرنے کا اور حسن سلوک کا حکم دیا گیا ہے۔ ان کی عورتوں کے ساتھ رفتار کی نوعیت کو دیکھ کر ان کی تشخص اور منزلت اور اسی طرح ان کی پستی اور گھٹیا شخصیت کا معیار قائم ہوگا۔بنابریں ہمیشہ کریم اور قابل قدر لوگوں کی طرف سے تکریم اور احترام ہوتا رہا ہے۔ اور اگر ان کی توہین اور رسوائی ہوتی ہے تو حقیر اور پست افراد سے ہوگا۔

عورتوں کی تعظیم و تکریم ؛ خدا کا ارادہ

جو کچھ مسلم  اور دینی کتابوں سے نتیجہ نکلتا ہے، یہ ہے کہ انسانوں کی عام یا خاص تکریم پہلے خداوند عالم کی طرف سے مورد تاکید ہے۔ اس کے بعد اخلاق الہی سے آراستہ ہونے کے باب سے الہی انسانوں اور بلند مرتبہ لوگوں میں دکھائی دیتا ہے۔

ہم امام حسین (ع) کے بارے میں حدیث قدسی میں پڑھتے ہیں: میں حسین (ع) کو اپنی وحی کا خزانہ دار بنادیا ہے اور اسے شہادت کے ذریعہ عظیم اور گراں قدر بنایا ہے۔

عورتوں کی تعظیم و تکریم کے بارے میں حضرت مریم (س)، زوجہ فرعون اور رسولخدا (ص) کی زوجہ حضرت خدیجہ (س) کا نام لیا جاسکتا ہے۔ شیعہ اور اہلسنت کی کتابوں میں ہمیں یہ نکتہ دکھائی دیتا ہے کہ حضرت زکریا نے خدا کی طرف سے حضرت مریم (س) کی عظمت و بزرگی، کرامت اور جلالت اور چار فصلی پھلوں کے دسترخوان کو دیکھ کر صرف حضرت مریم (س) کے سامنے کریمانہ اور خاضعانہ انداز میں قرار نہیں پائے بلکہ اپنی بوڑھی زوجہ سے مریم جیسی اولاد کے پیدا کرنے کے شدید خواہاں ہوئے۔

اسی طرح فرعون کی بیوی کی داستان اور ان کا موسی (ع) کو فرزندی میں قبول کرنا اور اس کی آسیہ (س) کے ذریعہ پیشکش کے بارے میں لکھتے ہیں: جب (اس عورت) نے اس (موسی) کی طرف نظر کی اس سعادت کی وجہ سے جو خدا نے انہیں دی تھی۔ تو اس نے موسی کو اپنا منہ بولا بیٹا بنالیا اور خدا نے اس کی تکریم کا ارادہ کیا اور اس کے شوہر کو (غلط انتخاب کی وجہ سے) بدبختی سے دوچار کیا۔

حضرت خدیجہ (س) کے بارے میں بھی کہا گیا ہے کہ ان کا رسولخدا (ص) سے شادی کرنے کی پیشکش خدا کی طرف سے ان کی تکریم کی بنا پر تھی۔

امام خمینی (رح) اس سلسلہ میں فرماتے ہیں:

شاہ عورت کے لئے اس خاصیت کا قائل تھا کہ عورت دلکش اور دلفریب ہو۔ اس نے اپنے اس جملہ سے عورت کو اس کے مقام انسانیت سے گرادیا اور ایک حیوان کے مرتبہ میں لاکر کھڑا کردیا۔ عورت انسان ہے وہ بھی ایک عظیم انسان، عورت معاشرہ کی تربیت کرنے والی ہے اور عورت ہی کی آغوش سے انسان پیدا ہوتے ہیں، عورت تمام سعادتوں کا سرچشمہ اور تمام نیکیوں کا مبدا ہے۔

ای میل کریں