آٹھویں ذی الحجہ روز ترویہ کے نام سے مشہور ہے۔ اس دن حجاج کرام، حج تمتع کی نیت کریں اور مکہ سے مُحرم ہوکر منا کی طرف روانہ ہو اور رات وہاں گذاریں۔ اور عرفہ کی صبح کو عرفات کی طرف کوچ کریں۔ اس دن روزہ رکھنا فضیلت رکھتا ہے اور اس دن کے روزہ کی اتنی فضیلت ہے کہ اگر کوئی اس دن روزہ رکھے تو اس کے روزہ کے ثواب 60/ سال کا کفارہ بنتا ہے۔
اس دن سن 60/ ق کو حضرت مسلم بن عقیل نے خود کو کوفہ میں ظاہر کیا اور اپنے اصحاب کو خروج اور قیام کرنے کا حکم دیا اور تھوڑی ہی دیر میں مسجد اور بازار مسلم کے اصحاب سے بھر گیا اور قصر و امارہ کا محاصرہ کرلیا اور ابن زیاد پر عرصہ حیات تنگ کردیا۔ ابن زیاد کے ماننے والوں نے کوفہ کو ڈرایا دھمکایا اور انھیں مسلم کی حمایت اور امداد کرنے سے روکا۔ کوفیوں نے نفاق اور پراگندگی دکھائی اور مسلسل حضرت مسلم سے دور ہونے لگے۔ جب رات ہوگئی تو ان اصحاب میں سے صرف 30/ افراد باقی رہ گئے۔
جناب مسلم بن عقیل نے مغرب کی نماز مسجد میں پڑھی اور جب مسجد سے باہر نکلے تو آپ کے ساتھ کوئی نہ تھا۔ پھر آپ تن تنہا کوفہ کی گلیوں میں حیران اور سرگرداں چکر کاٹنے لگے یہاں تک کہ طوعہ کے دروازہ پر پہونچے اور طوعہ اپنے بیٹے کا انتظار کررہی تھی۔
جب مسلم کی اس پر نظر پڑی تو آپ نے اسے سلام کیا اور پانی مانگا۔ طوعہ پانی لائی، مسلم پانی پی کر وہیں بیٹھ گئے۔ طوعہ پانی کا برتن گھر میں رکھ کر واپس آئی تو اس نے مسلم کو وہاں بیٹھا پایا۔ عرض کیا: بندہ خدا! کیا تم نے پانی نہیں پیا؟ فرمایا: ہاں۔ اس نے کہا: اٹھو اور اپنے گھر جاؤ۔ مسلم نے کوئی جواب نہیں دیا۔ اس عورت نے دوبارہ یہی بات کہی۔ پھر کوئی جواب نہیں ملا۔ تیسری بار بولی: سبحان اللہ اے بندہ خدا! اٹھو اور اپنے اہل و عیال کے پاس جاؤ کیونکہ اس وقت رات کے اس گھڑی میں میرا دروازہ پر تمہارا رہنا مناسب نہیں ہے اور میں بھی معاف نہیں کروں گا۔
مسلم اٹھے اور فرمایا: اے کنیز خدا! میرا اس شہر میں نہ کوئی گھر ہے نہ اہل و عیال ہیں اور نہ ہی کوئی مونس و یاور ہے۔ میں اس شہر میں پردیسی ہوں۔ کہیں جانے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ کیا ممکن ہے کہ تم مجھ پر احسان کرو اور اپنے گھر میں پناہ دو شاید اس کے بعد میں اس کا تمہیں بدلہ دے دوں۔
اس نے کہا: تمہارا معاملہ کیا ہے؟ فرمایا: میں مسلم بن عقیل ہوں۔ کوفیوں نے مجھے دھوکہ دیا اور میری مدد کرنے سے ہاتھ کھینچ لیا اور مجھے تنہا اور بے یاور و مددگار چھوڑدیا ہے۔
طوعہ مسلم کو اپنے گھر میں لے آئی اور جناب مسلم عرفہ کی شب طوعہ کے گھر میں تھے۔ عرفہ کے دن آپ سے جنگ کرنے ابن زیاد کا لشکر آیا اور آپ سے جنگ کی تا کہ آپ کو گرفتار کرلے۔ اسی دن عینیہ میں عمرو بن سعید بن عاص بہت ساری جماعت کے ہمراہ مکہ میں حج کے بہانہ سے آئے اور وہ لوگ یزید کی طرف سے مامور تھے کہ امام حسین (ع) کو جس طرح ممکن ہو مکہ میں گرفتار کرکے یزید کے پاس لے جائیں یا آپ کو قتل کردیں۔
امام حسین (ع) نے احرام حج کو عمرہ سے بدلا اور آپ نے خانہ کعبہ کا طواف کیا اور صفا و مروہ کے درمیان سعی کی اور احرام سے خارج ہوکر عراق کی طرف روانہ ہوگیا۔
ابن عباس نے کہا ہے کہ عراق کی طرف کوچ کرنے سے پہلے کعبہ میں کھڑے تھے اور آپ کا ہاتھ جبرئیل کے ہاتھ میں تھا اور جبرئیل لوگوں کو آواز دے رہے تھے : اللہ کی بیعت کی طرف آؤ۔
خلاصہ حق و صداقت کے پیکر،علم و آگہی کے مظہر، نور و روشنی کے ہادی اور پیشوا نے آخری دم تک لوگوں پر اپنی حجت تمام کی اور اسی حجت کا ایک نمونہ یہ تھا کہ آپ نے حضرت مسلم بن عقیل کو اپنا نمائندہ بنا کر بھیجا تھا لیکن مال و دولت کے پجاری، خوف و دہشت کے اندھیرے میں چراغ ہدایت بجھا گئے اور حضرت مسلم کا ساتھ چھوڑ کر نمائندہ حق و انصاف کو ابن زیاد اور یزید کے حوالہ کردیا۔
خداوند عالم نے انسان کو سب سے بڑی دولت عقل کی دولت دی ہے اور قانون کے لئے قرآن جیسی کتاب دی ہے تا کہ انسان اپنی عقل سے قانون الہی کی کتاب کا صحیح مطالعہ کرے اور انسانیت کو زندہ رکھے، الہی تقاضوں پر عمل کرے اور اپنے ضمیر کا سودا نہ کرے۔