شیعوں کے پہلے امام اور اہلسنت کے چوتھے خلیفہ، رسولخدا (ص) کے چچا زاد بھائی اور داماد، حضرت زہرائے مرضیہ کے شوہر، امام حسن (ع) اور امام حسین (ع) کے والد گرامی حضرت علی (ع) کی شہادت کے بارے میں کچھ عرض کرنے سے پہلے آپ کا مختصر تعارف کرانا چلوں۔
آپ کا نام نامی علی، آپ کے القاب: امیرالمومنین، مرتضی، اسداللہ، حیدر، کرار، سید عرب، سید المسلمین، امام المتقین و غیرہ ہے۔ آپ کی کنیت: ابوالحسن اور ابوتراب ہے۔ آپ کے والد گرامی ابوطالب، اور مادر گرامی فاطمہ بنت اسد ہیں۔ آپ ہجرت سے ۲۳/ سال قبل سن ۳۰/ عام الفیل کو ۱۳/ رجب کے دن کعبہ معظمہ سعودی عرب میں پیدا ہوئے، اور شہادت ۲۱/ رمضان المبارک سن ۴۰/ ہجری قمری کو مسجد کوفہ میں ہوئی۔ آپ کا قاتل ابن ملجم ملعون ہے۔ آپ کا روضہ عراق میں ہے جو اس وقت حرم امیرالمومنین کے نام سے جانا جاتا ہے۔ آپ نے سعودی عرب کے مکہ اور مدینہ اور عراق کے کوفہ میں زندگی گزاری ہے۔ آپ کی عمر ۶۳/ سال تھی اور آپ کا دور خلافت سن ۳۵/ ہجری سے سن ۴۰ ہجری قمری تک رہا ہے۔
اسلام کی راہ کو بدلنے والے مسلمانوں کے عظیم حوادث میں ایک حادثہ حضرت علی بن ابی طالب (ع) کی شہادت عظمی ہے۔ آپ کی شہادت سے اسلام واحد معاون و مددگار، عالم امام، رووف و مہربان رہبر سے محروم ہوگئے اور اب انہیں ہر طرف سے بلاؤں اور فتنوں کی موجوں نے گھیر لیا۔ ۲۱/ رمضان المبارک اس عظیم انسان کی شہادت کا دن ہے جس کی آمد پر کعبہ میں شگاف ہوا اور اسلام کے اس پہلے عاشق کے جانےکے لئے اور اس کی شہادت کے لئے کینہ و عداوت کی بنیاد پر آپ کے فرق اقدس کو شگافتہ کیا تاکہ سب سے پہلا شہید محراب ہو اور بہترین گھڑی اور بہترین جگہ پر دعوت الہی کو لبیک کہا۔ جب آپ کی فرق اقدس پر تلوار پڑی اور سرشگافتہ ہوا آپ کی زبان پر »فزت و رب الکعبۀ« جاری ہوا۔ گویا عالم امکان کو غم و اندوہ میں مبتلا کردیا۔ اسی دردناک اور عظیم حادثہ اور روح فرسا مصیبت اور جانکاہ شہادت کی مناسبت سے اسلام کی نجات بخش تعلیمات اور تشیع کے مفاہیم سے آشنائی کے لئے ہم امام علی (ع) کے سوانح حیات کے کچھ گوشوں کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔
حضرت امام علی (ع) معصوم اور ایک انسان کامل ہستی ہیں جن کے تمام اقوال، فرمودات اور تائیدات ہمارے لئے حجت اور اعتبار رکھتے ہیں۔ آپ قرآن ناطق اور امام مبین ہیں۔ اور محراب مسجد میں خون میں غلطان ہونے تک کسی نے آپ کی قدر و منزلت کو نہیں پہنچاتا۔ آپ دشمنان خدا پر غضب کے وقت مرد آہنی اور یتیم بچوں کے سامنے اس درجہ متواضع اور مہربان تھے کہ یتیم بچے کے ساتھ زمین پر بیٹھتے ان کے سر پر دست شفقت پھیرتے اور آہ بھرتے اور کہتے: میں نے یتیم بچوں پر آہ بھرنے کے مانند کسی چیز پر آہ نہیں بھری ہے۔
رسولخدا (ص) کی رحلت کے بعد جو ناگفتہ بد حالات پیدا ہوئے، اس وقت حضرت علی (ع) نے خود کو اجتماعی میدان سے الگ کرکے خاموشی اختیار کرلی۔ نہ کسی جہاں میں شرکت کی اور نہ ہی رسمی طور پر کسی اجتماع میں کوئی خطبہ دیا۔ تلوار نیام میں رکھ لی اور فردی فرائض میں مشغول ہوگئے۔
جنگ نہروان اور خوارج کو کچلنے کے بعد عبدالرحمن بن ملجم، برک بن عبداللہ تمیمی اور عمرو بن بکر تمیمی ایک رات ایک جگہ پر اکٹھا ہونے اور اس وقت کے حالات، قتل و کشتار اور داخلی جنگوں کا جائزہ لیا اور نہروان میں اپنے مقتولین کو یاد کیا اور آخر کار اس نتیجہ پر پہونچے کہ اس قتل و کشتار اور برادر کشی کا باعث، علی، معاویہ اور عمروعاص ہیں اور اگر ان تینوں کا خاتمہ ہوجائے تو مسلمان اپنا فریضہ جان لیں گے۔ اس کے بعد ان تینوں نے آپس میں عہد کیا کہ ہم میں سے ہر ایک ان میں سے ایک کو مارنے کی ذمہ داری لے۔ ابن ملجم نے علی (ع) کو قتل کرنے کی ذمہ داری لی، اور ماہ رمضان کی ۱۹/ویں شب کو سجدہ کی حالت میں حضرت علی (ع) کو زہریلی تلوار سے ایسی ضرب لگائی کہ آپ کی شہادت ہوگئی۔ خون کا فوارہ بہا محراب عبادت خون سے بھر گئی اور آپ کی ڈاڑھی رنگین ہوگئی اور ہر طرف گریہ و ماتم بلند ہوگیا۔
تاریخ عالم و آدم کے اس عظیم ہادی اور پیشوا کے بارےمیں حضرت امام خمینی (رح) فرماتے ہیں:
حضرت علی (ع) ایک مجہول اور ناشناختہ حقیقت تھے۔ جن کی معرفت عام انسان کے لئے ممکن نہیں ہے۔ لیکن آپ کے بارے میں جو کچھ کہا اور بیان کیا جاسکتا ہے وہ یہی ہے کہ آپ کی خصوصیت «عبدالله» ہونا اور عبودیت کا کماحقہ حق ادا کرنا تھی، کیونکہ ذات و الا صفات نے تمام عبودیتوں سے رشتہ ناطہ توڑ خداوند وحدہ لاشریک سے رشتہ جوڑ لیا تھا اور تمام ظلمانی حجابوں کو چاک کرکے عظمت الہی کے نور تک پہونچ چکے تھے۔ دین و دنیا کی اس عظیم ہستی کی شہادت سے عالم اسلام ہی نہیں بلکہ عالم انسانیت کا ناقابل تلافی نقصان ہوا اور آج تک بلکہ قیامت تک اس کی بھرپائی محال ہے۔ خداوند عالم اس عظیم ذات کے صدقہ میں ہمیں علم و معرفت سے مالامال کرے اور راہ حق و صداقت کی ہدایت کرے۔ آمین۔