مورخین لکھتے ہیں کہ جب امام حسن مجتبی (ع) اپنے لشکر والوں اور اپنے اصحاب کی اتنی ساری بے وفائی، غداری، نفاق، دو رخی اور دھوکہ و فریب دیکھا اور یہ بھی کہ اب یہ لوگ دشمن کی سامنے پائیداری اور ثابت قدمی دکھانے والے نہیں ہیں اور ان کے قلبی ارادہ اور باطنی خیالات سے باخبر تھے پھر بھی آپ (ع) نے اتمام حجت کرتے ہوئے یہ خطبہ دیا:
تم پروای ہو! خدا کی قسم! معاویہ کبھی بھی جس کا تم سے وعده کیا ہے اس پر عمل نہیں کرے۔ میرا یہ خیال ہے کہ اگر میں اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ میں دے کر صلح کر بھی لوں تو وہ مجھے میرے حال پر چھوڑنے والا نہیں ہے کہ میں اپنے جد کے آئین پر عمل کروں (اور وہ مجھ سے کوئی سروکار نہ رکھے) میں اتنی طاقت رکھتا ہوں کہ خداوند متعال کی تنہا عبادت اور پرستش کرسکوں لیکن تمہارے مستقبل کو دیکھ رہا ہوں کہ (اس سستی اور نفاق) تمہارے لڑکے ان کے لڑوں کے گھروں کے دروازہ پر کھڑے ان سے روٹی اور پانی (کہ خود ان کا حق ہے) اور خدا نے ان کے لئے مقرر کیا ہے کا مطالبہ کررہے ہیں لیکن وہ لوگ انھیں روٹی اور پانی نہیں دے رہے ہیں۔ پس ان رفتار اور ان کی ہلاکت سے دوری اختیار کرو، عنقریب ظالموں کو معلوم ہوجائے گا کہ وہ کہاں لے جائے جائیں گے۔
خلاصہ یہ کہ امام حسن (ع) نے جب اپنے لشکر کے سرداروں، سپاہیوں اور اصحاب کی سستی، بے وفائی، منافقت اور دو روئی، غداری، ضمیر فروشی اور ان کے دنیا کی جانب دلبستگی دیکھی تو معاویہ کی جانب سے صلح کی پیشکش سے پہلے اتمام حجت کی۔
پھر بھی سپاہی اور اصحاب نهیں مانے اور دین، ضمیر اور انسانیت کا سودا کرنے پر تلے رہے تو امام کے پاس صلح کرکے حکومت سے کنارہ کشی کے سوا کوئی چارہ نہیں رہ گیا تھا کیونکہ آپ کے لشکر کے بڑے بڑے سردار راتوں رات معاویہ کی تھیلیوں کی سامنے ضمیر کا سودا کر رہے تھے اور دین فروشی کا بازار گرم تھا ایسی میں امام حسن (ع) تو معصوم اور عالم و دانا انسان تھے کوئی دوسرا بھی ہوگا تو صلح ہی کرے گا کیونکہ جس کی سہارے جنگ کرنی ہے اور اپنی حقانیت ثابت کرنی ہے اور کلمہ حق کو بلند کرکے باطل کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے سرنگوں اور رسوا کرنا ہے وہ بک چکاہے اور وہ درہم و دینار کا غلام بن چکا ہے، اس کی نگاہ میں دنیا دلہن لگ رہی ہے اور امام کی طرف سے لڑنے کا کوئی جذبہ اور حوصلہ دکھائی نہیں دے رہا ہے۔
امام (رح) اپنے ہی افراد کے ہاتھوں صلح کرنے پر مجبور ہوئے اور صلح کی لیکن اس کے باوجود آپ (ع) نے جو معاہدہ کیا اس میں معاویہ کو کوئی امتیاز نہیں دیا اور نہ اس کی حکومت کو خلافت اور مسلمانوں کی رہبری کے عنوان سے قانونی حیثیت دی ہے بلکہ آپ (ع) نے حق خلافت اپنا مسلم حق جانا اور معاویہ کے دعوی کو باطل ٹھہرایا جیسا کہ قارئین کو معاہدہ کے بند سے سمجھ میں آجائے گا۔
معاہدہ اور صلحنامہ کی مواد
۱۔ معاویہ کو اس شرط کے ساتھ حکومت دی جارہی ہے کہ وہ کتاب خدا، پیغمبر کی سنت اور صالح خلفاء کی سیرت پر عمل کرے گا۔
۲۔ معاویہ کے بعد حکومت حسن کے حوالہ ہوگی اور اگر انہیں (حسن کو) کوئی حادثہ پیش آجائے گا تو حسین حقدار ہوں گے اور معاویہ کو یہ حق نہ ہوگا کہ وہ کسی کو اپنا جانشین بنادے۔
۳۔ معاویہ امیر المومنین (ع) کو برا بھلا کہنا اور آپ پر نمازوں میں لعنت بند کراتے اور علی (ع) کو نیکی کے ساتھ یاد کرے۔
۴۔ خدا کی زمینیوں کے کسی گوشہ میں رہنے والے لوگ (شام، عراق، یمن اور حجاز) کی ہوں امن و امان میں ہوں، سیاہ فام اور سرخ فام مکمل محفوظ ہوں اور معاویہ ان کی لغزشوں کو نظر انداز کرے گا اور ان میں سے کسی کا گزشتہ خطاوں کی وجہ سے مواخذه نہ کرے گا اور عراق والوں گو گزشتہ کینوں کی وجہ سے گرفتار نہ کرائے گا اور اصحاب علی (ع) جہاں کہیں بھی ہوں مکمل امان میں ہوں اور علی (ع) کا کوئی شیعہ ان لوگوں کی اذیت کا شکار نہ ہوں۔ علی (ع) کی اصحاب و انصار کی جان، مال، عزت و ناموس محفوظ ہو اور اس سی لوگ مطمئن ہوں کوئی ان کا پیچھا نہ کرے۔ انہیں کوئی نقصان نہ پہونچائے، ہر حقدار کا حق اسی ملے اور اصحاب علی (ع) کے ہاتھ میں جو کچھ بھی ہے ان سی واپس نہ لیا جائے۔ حسن بن علی اور ان کے بھائی حسین بن علی (ع) اور خاندان رسول (ص) کس کسی فرد کی حفیہ یا علنی سازش کرکی جان نہ لی جائی اور اسلام سرزمینوں میں کسی جگہ بھی انہیں ڈرایا اور دھمکایا نہ جائے۔
۵۔ معاویہ خود کو امیرالمومنین کہلوانے کا حق نہیں رکھتا اور نہ ہی حسن بن علی کے سامنے کوئی گواہی دلائی جائے۔
مذکورہ بالا اپنوں اور غیروں کے حالات کا جائزہ لینے سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ ایسے موقع پر صلح بہترین انتخاب تھا اور اس کے علاوہ کچھ ہو ہی نہیں سکتا تھا اور اگر معاہدے کے بند کو ملاحظہ کریں اور غور و فکر کریں تو ہر انسان کو آزادی کی ساتھ جینے کا حق مل گیا اور انسانی اصول و قوانین کی حکمفرمائی ہوئی ہے۔ نہ شیعہ نہ سنی اور نہ ہی کوئی بلکہ ساری انسانوں کو ان کا حقیقی حق مل گیا ہے۔لیکن افسوس کہ صلحنامہ پر دستخط کرنے اور گواہوں کی تصدیق کے بعد ساری مواد کو پیروں تلے روند دیا گیا اور اسلام کا شیرازہ بکھر دیا اور انسانی اقدار کو پامال کردیا گیا جس کا نتیجہ آج تک انسانی معاشرہ جھیل رہاہے۔
جمہوری اسلامی ایران کی بانی نے اپنی تقریروں میں امام حسن (ع) کی صلح کی نتائج و اسباب اور علل کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:
اس وقت معاویہ ایک سلطان تھا۔ حضرت امام حسن (ع) نے اس کے خلاف قیام کیا جبکہ اس وقت سارے لوگوں نے اس نامرد اور بزدل انسان کی بیعت کرلی تھی اور اسے اپنا سلطان جانتے تھے۔ اس وقت حضرت امام حسن (ع) نے قیام کیا اور اس کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی اور اس وقت جو کرسکتے تھے لیکن کچھ نالائق اور بے دین لوگوں نے یہ کام ہونے نهیں دیا اور تحریک کو مردہ بنادیا۔ ایسے ماحول میں امام حسن (ع) نے صلح کرکے معاویہ کو ہمیشہ کے لئے رسوا کردیا اور امام حسن (ع) نے معاویہ کو اتنا ہی ذلیل اور رسوا کیا جتنا امام حسین (ع) نے یزید کو ذلیل و خوار کیا ہے۔ (صحیفہ امام، ج ۲، ص ۳۷۱)