مہر نیوز کی رپورٹ کے مطابق : محقق، ایران اور عراق کی تاریخ معاصر کے محقق اور کتاب(حوزہ نجف کو بحال کرنے والا) کے مصنف صفاء الدین تبرائیان نے اپنی ایک یاد داشت میں جس کو اسلامی انقلاب کے دستاویزی مرکز نے شائع کیا انھوں نے اس ضمن میں امام خمینی(رح) اور آیۃ اللہ حکیم کے درمیان تاریخی ملاقات کہ جس میں حوزہ نجف کے اس بزرگوار نے پہلوی حکومت کی مخالفت اور اسلامی انقلاب کی حمایت کی اس ملاقات کے بارے میں لکھا:
بدقسمتی سے حالیہ سا لوں میں کچھ ایسے مضامین لکھے گئے ہیں جن میں حوزہ علمیہ قم اور حوزہ علمیہ نجف کو دو قطب کے طور پر پیش کیا گیا ہے کہ جو حقیقت کے خلاف، غیر عقلانی اور مشکوک کام ہے۔
ہم حوزہ علمیہ نجف میں شہید صدر جیسے علماء کو دیکھتے جنہوں نے 20 سال تک کفایہ کی تدریس کی اور اس کے بعد چوبیس سال کی عمر ہمارے فلسفہ اور چھبیس سال کی عمر میں ہمارے اقتصاد کی کتاب لکھی دوسرے بہت سارے کام انجام دے ہیں جن کی وجہ سے امام خمینی (رح) نے ان کو اسلامی مفکر کے لقب سے نوازا اور ان کی شہادت پر پہلی اور آخری بار تین دن کے لئے عمومی عزا کا اعلان کیا اور اسی طرح حوزہ علمیہ قم میں بھی اس طرح کے مفکر کم نہیں ہیں۔
اس معاصر محقق کی یاد داشت میں پڑھتے ہیں:
دین مبین اسلام کے ظہور کے بعد اسلامی انقلاب کی کامیابی سب بڑا واقع ہے جو ایران کی سرزمین میں رونما ہوا وہ انقلاب جس کی راہنمائی کی ذمہ داری مرجع جامع شرائط اور فقیہ نے لی تھی، امام خمینی (رح) نے 2500 سال سے قائم قدیمی شہنشاہی نظام کو ختم کر کے اسلام پر مبتنی جمہوریت کو نافذ کیا اس تحریک میں ایران کی عوام کے علاوہ ایران اور نجف کے علماء نے بھی امام خمینی (رح) کا ساتھ دیا۔
بدقسمتی سے حالیہ سا لوں میں کچھ ایسے مضامین لکھے گئے ہیں جن میں حوزہ علمیہ قم اور حوزہ علمیہ نجف کو دو قطب کے طور پر پیش کیا گیا ہے کہ جو حقیقت کے خلاف، غیر عقلانی اور مشکوک کام ہے۔
آیۃ اللہ سید ہاشم رسولی اپنی ایک یاد داشت میں بیان فرماتے ہیں کہ حضرت آیۃ اللہ حکیم دوسرے دن باقی مراجع کرام کے بعد امام (رح) سے ملنے آے لیکن وزیٹر کے طور پر امام (رح) نے سب سے پہلے آیۃ اللہ حکیم سے ملاقات کے لئے کہا اس ملاقات میں امام (رح) نے حضرت آیۃ اللہ حکیم سے فرمایا:
آپ ابھی شیعوں کے علمبردار ہیں اور ایک حساس مقام پر ہیں ۔۔۔ان کی گفتگو حسنین علیہما السلام کی صلح ،جنگ ۔سید الشہداء کے قیام اور امام حسن مجتبی (ع) کی صلح تک پہنچ گئی جو مرحوم شیخ نصراللہ خلخالی کے ذکر پر اختتام پذیر ہوئی۔ (یادداشت آیۃ اللہ سید ہاشم رسولی محلاتی ص93،94)
اس ملاقات کا دوسرا حصہ کو حجۃ الاسلام والمسلمین شیخ نصراللہ خلخالی کے ذریعے نقل ہوا ہے جو پہلوی جاسوسوں تک پہنچ گیا تھا جس کو ساواک کی طرف سے بیان کردہ دستاویزات کے آئینہ میں امام خمینی کی جدوجہد کا راستہ ج9 ص280،278 میں شائع کیا گیا ۔
تحریک امام خمینی ج2 ص 151،152پر اسی روایت کو نقل کیا ہیکہ امام (رح) نے آیۃ اللہ حکیم سے فرمایا : اگر امام حسن (ع) کے پاس آپ اتنے صحابی ہوتے تو ضرور قیام کرتے تمام اسلامی ممالک میں آپ کے مقلدین ہیں اور میں بھی انھیں میں سے ایک ہوں آپ آگے بڑھیں ہم سب آپ کے پیچھے ہیں اور آپکی پیروی کریں گے۔
تیسری روایت: حجۃ الاسلام والمسلمین سید علی اکبر ہور محتشمی سے منقول ہے وہ اس ملاقات میں حاضر نہیں تھے لیکن آیۃ اللہ سید مصطفی خمینی (رح) سے نقل کرتے ہیں امام(رح) کے فرزند گر چہ اس ملاقات میں نہیں تھے لیکن انھوں نے جو کچھ بھی نقل کیا ہے اپنے والد سے نقل کرتے ہیں اس لئے یہ روایت خاص اہمیت رکھتی ہے۔
اس روایت میں امام (رح) آیۃ اللہ حکیم سے فرماتے ہیں آپ کا نظریہ اور گفتگو کافی موثر ہے ہم نے اس عر صہ میں اس کے اثرات دیکھے بھی ہیں اگر امام حسن (ع) کے پاس آپ کی طرح چاہنے والے ہوتے تو کبھی بھی صلح نہیں کرتے آ پ تحریک کو شروع کریں ہم سب آپ کی پیروی کریں گے آپ قیام کریں سب پہلے میں خود آپ کا ساتھ دوں گا اور آپ کے پیچھے چلوں گا (خاطرات سید علی اکبر محتشمی پور ص 486،489)اور یہ گفتگو حضرت آیۃ اللہ حکیم کی مسکراہٹ اور مہمانوں کے شکریہ کے ساتھ ختم ہوئی ۔
اس ملاقات کے آخری راوی حجۃ الاسلام والمسلمین شیخ محمد سمامی ہیں جو ابھی بھی قم میں حضرت آیۃ اللہ العظمی سیستانی کے دفتر میں خدمت دین کر رہے ہیں۔
سمامی کے بقول:22 جمادی الثانی بروز سموار بمطابق 26 مہر 1344 کو یہ ملاقات نماز مغرب و عشاء کے بعد حضرت آیۃ اللہ حکیم کے گھر کے باہر ہوئی اس ملاقات میں حضرت آیۃ اللہ حکیم امام خمینی (رح) کی تحریک پر مشتمل گفتگو کے جواب میں فرماتے ہیں محمد رضا پہلوی کے خلاف تحریک چلائیں لیکن احتیاط سے کام لیں اور لوگوں کے تحفظات پر کافی تاکید کی ثورۃ العشرین کی تحریک کی طرف اشارہ کیا جس میں خون کا ایک قطرہ بھی نہیں نکلا اس روایت کے مطابق اس ملاقات میں امام خمینی (رح)امام حسین (ع) کے قیام اور اس کے اثرات کی طرف اشارہ کرتے رہے اور آیۃ اللہ حکیم صلح امام حسن (ع) کی طرف۔(احیا گر حوزہ نجف،ج2 ص 186،188)