دین اور کمال انسان

دین اور کمال انسان

دین نام ہے ایسی راہ وروش کا جس کی پیروی انسان پر واجب ہے تاکہ وہ سعادت مند بن سکے

دین نام ہے ایسی راہ وروش کا جس کی پیروی انسان پر واجب ہے تاکہ وہ سعادت مند بن سکے پس کسی انسان کاسعادت کے علاوہ اور کوئی مقصد ہی نہیں  ہے اسی لئے تمام مخلوقات کو ان کی سعادت کی طرف فطری طورپر ہدایت کردی گئی ہے؛ بنا بریں ، انسان بھی تمام مخلوقات کی طرح ایسی فطر ت کے ساتھ خلق کیا گیا ہے جو اس کو نواقص کی تکمیل اور اپنی ضرورت پوری کرنے کی طرف دعوت دیتی اور اس کی جانب ہدایت کرتی ہے اور جو چیزیں  اس کیلئے نفع بخش یا جو چیزیں  نقصان دہ ہیں  یہ سب کچھ اس کو الہام کردیا اور فرمایا: { وَنَفْسٍ وَمَاسَوَّاہَا  فَأَلْہَمَہَا فُجُورَہَا وَتَقْوَاہَا }۔(سورۂ شمس، ۹۱؍۷،۸؛  ترجمہ المیزان، ج۱۶،ص۲۸۲)

امام خمینی (رح) نے انتالیسویں  حدیث کی تشریح کرتے ہوئے خیر وشر اور ان کی کیفیت کے بارے میں  کچھ باتیں  بیان کی ہیں  ہم ان میں  سے بعض نکات کی طرف اشارہ کریں گے تاکہ اس بحث کی مزید وضاحت ہو سکے سب سے پہلے ہم خود حدیث پر ایک نظر ڈالتے ہیں  کہ اس کے راوی معاویہ ابن وہب ہیں  جنہوں  نے حضرت جعفر امام صادق   (ع)سے اس حدیث کو نقل کیا ہے:

قال؛ سمعتُ أبا عبد اﷲ   (ع)، یقول: ’’إنّ ممٰا أُوحی اﷲ إلیٰ موسیٰ  (ع)، وأنزل علیہ في التوراۃ:  أنّي أنا اﷲ، لاٰ إلٰہ إلاّٰ أنا۔ خلقتُ الخلق وخلقت الخیر وأجریتہ علیٰ یدي مَن أُحِبُّ، فطوبیٰ لمَن أجریتہ علیٰ یدیہ؛  وأنا اﷲ لاٰ إلٰہ إلاّٰ أنا۔  خلقتُ الخلق وخلقت الشّرَّ وأجریتہ علیٰ یدي مَن أُریدہ، فویلٌ لمَن أجریتہ علیٰ یدیہ‘‘۔(شرح چہل حدیث، ص ۶۴۲)

معاویہ ابن وہب کا بیان ہے کہ میں  نے حضرت امام جعفر صادق  (ع) کو فرماتے ہوئے سنا :خدا نے حضرت موسیٰ پر وحی کی اور ان کے اوپر جو توریت نازل کی اس میں  فرمایا: میرے علاوہ کوئی دوسرا خدا نہیں  میں  نے مخلوق کو اور خوبی کو پیدا کیا اور میں  نے ان دونوں  کو اس شخص کے دونوں  ہاتھوں  پر جاری کیا جس کو میں  دوست رکھتا ہوں  پس وہ شخص بہت خوش نصیب ہے جس کے دونوں  ہاتھوں  پر خیر کو جاری کیا میرے علاوہ کوئی خدا نہیں  ہے میں  نے مخلوق کو اور شر کو پیدا کیا اور اس کو اس شخص کے دونوں  ہاتھوں  پر جاری کیا جس کا میں  نے ارادہ کیا پس اس پر وائے ہو جس کے دونوں  ہاتھوں  پر شر کو جاری کیا۔

امام خمینی (رح) نے لفظ’’الٰہ ‘‘ اور لفظ ’’اﷲ ‘‘ کی تشریح کے بعد وضاحت کی ہے کہ تما م مخلوقات کی خلقت، الٰہی فطر ت پر ہوئی ہے اس آیت شریفہ  { وَلَکِنَّ أَکْثَرَ النَّاسِ لاَیَعْلَمُونَ} (سورۂ روم، ۳۰؍۳۰) کے آخری حصہ کی مختصر طور پر تفسیر کی ہے۔ اگرچہ بعض مفسرین نے اس نا آگاہی اور لاعلمی کو دین کی خصوصیت سے تفسیر کیا ہے یعنی لوگ دین الٰہی کے قیّم واستوار ہونے کو نہیں  جانتے لیکن امام خمینی (رح) کا نظریہ یہ ہے کہ اکثر لوگ یہ نہیں  جانتے کہ ہر مولود دین حنیف پر پیدا ہوتا ہے در حقیقت آپ یہ بتانا چاہتے ہیں  کہ ’’لایعلمون‘‘کا مطلب یہ ہے کہ اکثر لوگ اپنی فطر ت کی حقیقت سے نا آگاہ ہیں ۔ امام خمینی  (رح) فرماتے ہیں  :

’’ میں  معبود ہوں  اور میرے علاوہ کوئی معبود نہیں  ‘‘ یہ عبارت یا اس بات پر موقوف ہے کہ کوئی دوسرا اس کا مستحق نہیں  ہے اگرچہ لوگوں  کی غلط فہمی کے نتیجہ میں  وہ معبود بن جائے یا ارباب معرفت کے قول پر موقوف ہے کہ ہر مظہر میں  عبادت، عبادت مطلق کامل ہے اور انسان { فِطْرَۃَ اﷲِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْہَا}( سورۂ روم، ۳۰؍۳۰) کے بعد مطابق علی الاطلاق جمیل کا طالب ہے اگرچہ خود اس فطر ت سے پردہ میں  ہے اور اپنے کو متعین وتعین سے دل بستہ گمان کرتا ہے اور شاید ذیلی حدیث کی مناسبت سے کہ خیر وشر کو اپنی طرف منسوب کیا ہے الٰہ سے مراد وہی مقام الہٰیت ہے اور یہ توحید افعالی کی طرف اشارہ ہے،’’لاٰ مؤثر في الوجود إلاّٰ اﷲ‘‘۔(  شرح چہل حدیث، ص۶۴۲، ۶۴۷)

آپ نے علامہ مجلسی(رح) کے نظریہ کو نقل کر کے اس پر تبصرہ کیا پھر جبر وتفویض کے سلسلہ میں  اشاعرہ ومعتزلہ کے عقائد کو رد کیا اس کے بعد امر بین الامرین پر تاکید کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

امامیہ فرقہ کے لوگ اور ان کے ائمہ بندوں  کے کسی فعل میں  ارادۂ حق کو معزول نہیں  جانتے اور کسی چیز کے امر کو بندوں  کے سپرد نہیں  جانتے۔ (  شرح چہل حدیث، ص۶۴۲، ۶۴۷)

بہر حال امام خمینی (رح) اسی بیدار فطر ت کے ساتھ تما م امور کو وحدت کے سایہ میں  دیکھتے ہوئے فرماتے ہیں :

۔۔۔ یہ معلوم ہونا چاہئے کہ علوم عالیہ میں  یہ بات بالکل واضح ہے کہ نظام وجود، کمال خیریت کے اعلیٰ مرتبہ اور حسن وجمال کے اقصیٰ درجہ میں  ہے۔۔۔ اور جو چیزیں  بھی کمال وجمال اور خیریت کے سلسلہ کی ہیں  وہ اصل حقیقت وجود سے خارج نہیں  ہے کیونکہ اس کے علاوہ کسی دوسری چیز کیلئے کوئی تحقق ہی نہیں  ہے اور یہ معلوم ہے کہ حقیقت وجود کے مقابل میں  عدم یا ماہیت ہے ان میں  سے کوئی ایک بھی بذاتہ کوئی چیز نہیں  ہے اور نہ کوئی اہمیت ہے یہ بطلان صرف یا اعتبار صرف ہیں  پس تما م کمالات، جمیل علی الاطلاق کے جمال کا پرتو ہیں ’’فہو جمیل فی ذاتہ وصفاتہ وافعالہ‘‘۔(شرح چہل حدیث، ص۶۴۲، ۶۴۷)


ای میل کریں