فطرت

فطریات کی قسمیں

الٰہی فطرتیں ۔۔۔ ان الطاف میں سے ہیں جن سے خدا نے تمام مخلوقات میں سے صرف انسان کو مخصوص کیا ہے

امام خمینی(ره) کے بیانات میں  جن فطریات کا ذکر ہے انہیں  مختلف گروہ میں  تقسیم کیا جاسکتا ہے یہاں  پر پانچ گروہ کی طرف اشارہ کیا جا رہا ہے:

الف:  فطریات اولیہ وثانویہ

امام خمینی (ره) ان امور کو ’’ فطرت اولی ‘‘ کہتے ہیں  جو کمال طلب اور الٰہی فطرت کی بنیاد پر انسان کے اندر موجود ہوتے ہیں  یا ان میں  ترقی کرنے اور آگے بڑھنے کی صلاحیت ہوتی ہے اور جو امور اس فطرت سے انحراف کی بنیاد پر ظاہر ہوتے ہیں  انہیں  ’’ فطرت ثانوی ‘‘ کہتے ہیں  مثلاً انسان جو دوسروں  بلکہ امام خمینی(ره) کے بقول (دوسروں  نہیں  بلکہ ) اپنے بھائیوں  کو دوست رکھتا ہے یہ اس کی فطرت اولیہ ہے لیکن دوسرے انسانوں  سے دشمنی فطرت ثانویہ ہے جو فطرت اولیہ سے انحراف وگمراہی کی صورت میں  ظاہر ہوتی ہے۔

ب:  فطرت اصلی وتبعی

امام خمینی(ره) نے مطلق کمال طلبی اور اس کی فروعات کو ’’ فطرت اصلی ‘‘ بتایا ہے اور نقص و شرور اور ان کے فروعات کو ’’ فطرت تبعی ‘‘ بتایا ہے۔آپ نے فطرت اصلی وتبعی کے مصادیق کے بارے میں  تفصیل سے بحث کی ہے۔

ج:  فطرت بصیرت وفطرت رجحان

فطرت کے جن مصادیق وموارد کا تذکرہ امام خمینی(ره) کے کلمات میں  ہو اہے وہ معرفت و شناخت کے مقولہ سے ہے۔ امام خمینی(ره) اسے ’’ فطرت عقلی ‘‘ کے نام سے یاد کرتے ہیں  اور اسے انسانی عقل کا مقتضی جانتے ہیں  چاہے وہ عقل کہ جو ہستی شناسی کے احکام سے ہو یا عقل کی ارزش شناسی احکام سے ہو۔

آپ نے حدیث فطرت کی تشریح کے ذیل میں  فطرت کے لغوی واصطلاحی معنی کی وضاحت کے بعد اصل وجود خدا، اس کا تمام صفات کمالیہ کا مالک ہونا، توحید، قیامت، نبوت، ملائکہ، وروحانیون پر عقیدہ رکھنا اور انزال کتب جیسے سارے امور بلکہ کلی طور پر تمام معارف حقہ کو فطری جانتے ہیں ۔  اور ان کے فطری ہونے کی وضاحت میں  یہ دلیل پیش کرتے ہیں  کہ عقل یہ حکم دیتی ہے کہ نعمت دینے والے کا شکر ادا کرنا ضروری ہے اسی طرح عظیم انسان کا احترام اور حاضر شخص کا اکرام ضروری ہے جو ارزش شناسی امور کے مقولہ سے ہے نیز تمام صفات کمالیہ کی نسبت خدا کی وحدانیت کی تعیین میں  عقل نظری سے استفادہ کرتے ہیں  جو عقل کی ہستی شناسی احکام کے مقولہ سے ہے۔(  شرح چہل حدیث، ص ۱۸۵)

د:  بالفعل اور بالقوہ فطرت

اگرچہ امام خمینی(ره) کتاب چہل حدیث میں  اس موضوع پر تاکید کرتے ہیں  کہ انسان کا نفس، فطرت وخلقت کے آغاز میں  محض استعداد اور نفس قابلیت کے سوا نہیں  ہوتا وہ سعادت وشقاوت کے سلسلے میں  ہر قسم کی فعلیت سے عاری وخالی ہوتا ہے لیکن آپ ’’ صحیفہ ‘‘ میں  فرماتے ہیں :

انسان کے اندر غیب و شہود کے تمام عوالم ہیں  البتہ کچھ بالفعل ہوتے ہیں  اور کچھ بالقوہ۔( صحیفہ امام، ج ۱۱، ص ۲۱۹ )

ھ:  عام اور خاص فطرت

یہ بات گزر چکی ہے کہ امام خمینی(ره) فطرت توحید اور معارف حقہ کو انسان سے مخصوص جانتے ہیں  اور آپ یہ عقیدہ رکھتے ہیں  کہ دوسرے موجودات یا تو سرے سے ہی ان سے محروم ہیں  یا بہت کم مقدار میں  بہرہ مند ہیں ۔ آپ اس سلسلے میں  فرماتے ہیں :

الٰہی فطرتیں ۔۔۔ ان الطاف میں سے ہیں  جن سے خدا نے تمام مخلوقات میں  سے صرف انسان کو مخصوص کیا ہے دوسرے موجودات میں  یا تو سرے سے یہ فطرتیں  موجود نہیں  ہیں  یا وہ ناقص ہیں  جس سے بہت کم بہرہ مند ہیں ۔(  شرح چہل حدیث، ص۱۸۰)

آپ کے اس بیان اور دوسرے بیانات کہ جو قوت غضب، قوت شہوت اور قوت وہم کے بارے میں  ہیں  سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ دوسری فطرتیں  انسان سے مخصوص نہیں  ہیں ۔

ای میل کریں